بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

١٥ شعبان کو روزہ رکھنا اور اس رات کو عبادات کرنا کیسا ہے ؟


سوال

١٥ شعبان کو روزہ رکھنا اور اس رات کو عبادات کرنا کیسا ہے ؟

جواب

پندرہ شعبان  کو روزہ رکھنا اور اس رات کو اللہ تعالی کی عبادت کرناحدیث سے ثابت ہے،مذکورہ حدیث اگر چہ  سند کے اعتبار سےضعیف ہے لیکن اس کے باوجود   اس کو   فضائل میں بیان کرنےمیں اور اس پر عمل كرنے ميں  کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ اصول حدیث کا یہ ضابطہ ہے کہ ضعیف حدیث سے عقائد واحکام تو ثابت نہیں کیے جاسکتے، البتہ ضعیف حدیث کو   فضائل اعمال ، قصص اور ترغیب وترہیب  وغیرہ میں روایت کرنا اور عمل کرنا جائز ہے،لہذا پندرہ شعبان کی رات کو   عبادت کرنا اوراس دن کو روزہ رکھنا مستحب اور مرغوبات میں شامل ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب قال «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا حتى يطلع الفجر»"

(کتاب اقامة الصلاة، ج:1، ص:444،دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:""  حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جب نصف شعبان کی رات ہو تو  اس رات کو عبادت کرو اور دن كوروزہ رکھو، اس لیے کہ اُس راتمیں اللہ تعالیغروبِ شمس سے طلوعِ فجر تک آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان فرماتے  ہیں :’’ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اس کی مغفرت کروں!  ہے کوئی روزی کا طلب گار  کہ میں اس کو روزی دوں! ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اس کو عافیت دوں  ! ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا!(یوں مختلف اعلانات فرماتے ہیں) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔"

حاشیہ سندھی میں ہے:

"قوله: (فقوموا ليلها) أي الليلة التي هي تلك الليلة فالإضافة بيانية وليست هي كالتي في قوله فصوموا يومها... وفي الزوائد إسناده ضعيف لضعف ابن أبي بسرة واسمه أبو بكر بن عبد الله بن محمد أبي بسرة قال فيه أحمد بن حنبل وابن معين يضع الحديث"

(کتاب اقامة الصلاة، ج:1، ص:421،دار الفکر)

قال في "النکت علی مقدمة ابن صلاح":

"أن الضعيف لا يحتج به في العقائد والأحكام ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك كالقصص وفضائل الأعمال والترغيب والترهيب ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال إذا روينا عن النبي صلى الله عليه وسلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد وانتقدنا في الرجال وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد وتسامحنا في الرجال."

[النوع الثاني والعشرون، ج:2، ص:308، ط:أضواء السلف، الرياض]

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"فقہاء کرام نے لکھاہے کہ اللہ تعالی کے ہاں مرغوب روزوں میں ۱۵ شعبان(شب برات)کا روزہ بھی ہے، لہذا اس قسم کاروزہ رکھنا موجب اجر وثواب ہےلمافي الهندهة:المرغوبات من الصيام أنواع أولها صوم المحرم، والثاني:صوم رجب، والثالث:صوم شعبان "

(کتاب الصوم، ج:۴، ص:۱۵۲، ط:دار العلوم حقانیہ)

بہشتی زیور میں ہے:

"شعبان کے مہینے کے پندرھویں دن کا روزہ رکھنا بھی منقول ہے"

(روزے کا بیان،ج:۱، ص:۳۹۲، ط:مجلس نشریات اسلام)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144408101011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں