بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ سال کی عمر میں روزہ فرض ہے


سوال

ایک لڑکا عمر میں پندرہ سال کا ہے،  لیکن روزہ برداشت نہیں کر سکتا،  کم زوری زیادہ ہے. روزے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ روزہ بالغ پر فرض ہوتا ہے، اگر کسی بچے /بچی میں پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی بلوغت کی علامات ( مثلاً: احتلام ، حیض  یا حمل وغیرہ) میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے تو اسی وقت سے روزہ فرض ہوجائے گا ، لیکن اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو لڑکا اور لڑکی دونوں قمری حساب سے پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر بالغ سمجھے جائیں گے اور جس دن سولہواں سال شروع ہوگا اس دن سے ان پر نماز روزہ وغیرہ فرض ہوگا۔

لہذامذکورہ بچے پر جو پندرہ سال کی عمر کا ہوگیا ہے، روزہ شرعی اعتبار سے فرض ہے۔ البتہ اگر واقعۃً اسے کوئی مرض ہو اور کسی ماہر دین دار ڈاکٹر  کی رائے یہ ہوکہ اس کی صحت فی الوقت روزے کی متحمل نہیں ہے تو اس صورت میں جب تک روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو اس وقت تک روزہ چھوڑ سکتا ہے اور جتنے روزے چھوٹ جائیں بعد میں ان روزوں کی قضاکرنا لازم ہوگی۔

اور اگر روزے کی عادت نہ ہونے یا صرف کم زوری محسوس ہونے کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہ گرمی کا روزہ برداشت نہیں کرسکے گا تو  روزہ نہ چھوڑے، بلکہ روزہ رکھے، تاہم اگر روزہ رکھ کر بھوک پیاس اس کی برداشت سے باہر ہوجائے اور جان بلب ہونے کا خطرہ ہو تو روزہ افطار کرلے اور بعد میں اس روزے کی قضا کرلے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں