ہمارے قریبی کاانتقال ہوا اور وہ پندرہ دن صاحبِ فراش رہے، جس کی وجہ سے نماز ادا نہ کر سکے، ان کے ورثاء کو کتنافدیہ ادا کرنا ہوگا؟ اور وہ صاحب اہل وعیال کے ساتھ متحدہ عرب امارات دبی میں مقیم تھے !
صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم بیماری کی حالت میں ہوش و حواس میں تھے اور ان کے ذمہ قضا نمازیں ہیں اور انہوں نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو اس صورت میں ان کے مال میں سے ہی فدیہ اداکیاجائے گا،اور (تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے بعد، باقی رہنے والے) کل مال کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، اگر تمام قضا نمازوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں کا فدیہ ورثہ کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ بطورِ تبرع مرحوم کی بقیہ فوت شدہ نماز و روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔
اور اگرآپ کے مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز وں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء از خود باہمی رضامندی سے یاآپ اپنی جانب سے ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کردیں تو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔
ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔
فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ، لہذا ورثاء ان کی نماز اور روزوں کا اندازا لگاکرفدیہ اداکرنا چاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 72):
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم".
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144208200190
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن