بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

14 لاکھ لو اور طلاق لو کہنا


سوال

میری اپنی بیوی کے ساتھ بحث ہو رہی تھی، جس  میں اس نے کہا کہ : یہ گھر میرا ہے۔ تو میں نے کہا کہ : یہ گھر میرا بھی ہے۔ جس پر بیوی نے کہا کہ اس میں  14 لاکھ میرے  ہیں،  جس پر میں نے کہا کہ 14 لاکھ لو اور طلاق لو۔

اس کے بعد دوسرے دن whatsapp پر درج ذیل بات ہوئی:

[2:02 PM, 3/23/2021]

بیوی: ایک نارمل لائف اسٹائل دینا ہے،  زیادہ کچھ نہیں۔

[2:02 PM, 3/23/2021]

شوہر:  دفعہ ہو جاؤ پھر تم کسی کے ساتھ۔

[2:02 PM, 3/23/2021]

شوہر: جو تمہیں اچھی لائف دے۔

[2:02 PM, 3/23/2021]

شوہر:  کیا تماشہ لگا رکھا ہے تم نے!

[2:02 PM, 3/23/2021]

شوہر: گھر گھر کرتی ہو ۔

[2:02 PM, 3/23/2021]

شوہر:  اور تمہیں بڈھا چاہیے۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر: میں فارغ کرتا ہوں تمہیں۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر: پھر دیکھتا ہوں کونسا بڈھا ملتا ہے۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر: لعنت بھیجتا ہوں میں اس گھر پر۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر:  جو تمہارے باپ کے پیسوں سے ہوا۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

بیوی: کہاں جاؤگے؟

[2:03 PM, 3/23/2021]

بیوی: اچھا بتا تو دو کہاں جاؤ گے؟

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر: جہاں بھی جاؤں،  میرا تم سے تعلق نہیں، اب سے۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

بیوی: اچھا۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

بیوی: سچ

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر: ایک دفعہ لکھ چکا  ہوں۔

[2:03 PM, 3/23/2021]

شوہر: لکھنے سے طلاق ہوجاتی ہے۔

ان سب باتوں کی روشنی میں کیا طلاق واقع ہوگئی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں شوہر  کا قول:" 14 لاکھ لو  اور طلاق لو"سے طلاق واقع ہونا اس کی نیت پر موقوف ہوگا، البتہ میسج پر   گفتگو کے دوران شوہر کا  تحریر  کرنا کہ : " میں فارغ کرتا ہوں تمہیں"  طلاق کے کنائی الفاظ میں سے  ہے، جس   سے  واقع  ہونے کے  لیے نیت کا ہونا، یا  مذاکرۂ  طلاق کے دوران کہنا ضروری   ہوتا ہے، پس میاں بیوی کے درمیان  چوں کہ طلاق کے حوالے سے ہی گفتگو کے دوران شوہر نے مذکورہ الفاظ تحریر  کیے تھے؛  لہذا  ان الفاظ  سے   ایک  طلاقِ  بائن  واقع ہوگئی ہے، رجوع جائز نہیں، البتہ باہمی رضامندی سے نئے مہر  کی تعیین کے  ساتھ تجدیدِ  نکاح جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَ هِيَ حَالَةُ مُذَاكَرَةِ الطَّلَاقِ) أَشَارَ بِهِ إلَى مَا فِي النَّهْرِ مِنْ أَنَّ دَلَالَةَ الْحَالِ تَعُمُّ دَلَالَةَ الْمَقَالِ قَالَ: وَعَلَى هَذَا فَتُفَسَّرُ الْمُذَاكَرَةُ بِسُؤَالِ الطَّلَاقِ أَوْ تَقْدِيمِ الْإِيقَاعِ كَمَا فِي اعْتَدِّي ثَلَاثًا وَقَالَ قَبْلَهُ الْمُذَاكَرَةُ أَنْ تَسْأَلَهُ هِيَ أَوْ أَجْنَبِيٌّ الطَّلَاقَ."

( كتاب الطلاق، بَابُ الْكِنَايَاتِ، ٣ / ٢٩٧)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں