بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق قاسمِ رزق کا عقیدہ رکھنا اور درود میں ان الفاظ کا پڑھنا


سوال

کیا کسی حدیث میں اس طرح کا درود مذکور ہے جس میں آں  حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو "قاسم رزقه"  بتا یا گیا ہو ؟  اگر نہیں تو اس طرح کے الفاظ کے ساتھ درود شریف پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

رزق دینے  والے اور اسے تقسیم کرنے والے اور تمام خزانوں کے مالک صرف اللہ رب العزت ہیں، قرآن مجید میں ہے :

{قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ } [الأنعام: 50]

ترجمہ :  آپ کہہ  دیجیے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ میں تمام غیبوں کو جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرلیتا ہوں۔ آپ کہہ دیجیے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے؟ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟ (بیان القرآن)

{اِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ} [الذاریات]

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والے، مضبوط قوت والے ہیں۔

باقی حدیثِ  مبارک  میں آپ ﷺ نے اپنے آپ کو ’’قاسم‘‘ (تقسیم کرنے والا) اور اللہ تعالیٰ کو  ”معطی“ (عطا کرنے والا) بتایا ہے یہ دو مختلف مواقع پر حدیث منقول ہے :

1۔۔  صحیح بخاری (1 / 25) میں ہے:

"قال حميد بن عبد الرحمن: سمعت معاوية خطيباً يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من يرد الله به خيراً يفقهه في الدين، وإنما أنا قاسم والله يعطي، ولن تزال هذه الأمة قائمةً على أمر الله، لايضرهم من خالفهم، حتى يأتي أمر الله»".
ترجمہ : ، حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ  ؓ  کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عنایت فرماتا ہے، اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے، (یاد رکھو کہ) یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو شخص ان کا مخالف ہوگا ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

اور دوسری حدیث میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما أعطيكم ولا أمنعكم، إنما أنا قاسم أضع حيث أمرت»". (صحيح البخاري (4 / 85)

ترجمہ : رسول ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں نہ کوئی چیز دیتا ہوں اور نہ کوئی چیز تم سے روکتا ہوں، میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں، جہاں دینے کا حکم ملتا ہے وہاں دیتا ہوں۔ 

اس میں ایک تو علم کی تقسیم سے متعلق ہے کہ میں  تو علم تقسیم کردیتا ہوں اور علم اور فہم دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، اور دوسری حدیث میں مالِ غنیمت کے خمس کی تقسیم کا ذکر ہے، جو خمس مجھے ملتا ہے میں اسے اللہ کے حکم سے تقسیم کرتا ہوں ۔

لہذا اس سے یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ ﷺ مختار کل ہیں جسے چاہیں رزق دینے پر قادر ہیں، غلط ہے۔

اگر مذکورہ امام بلاتاویل  اسی عقیدے کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ کو ’’قاسم رزقہ‘‘  گردانتا ہو تو اس کی اقتدا  میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔

احادیثِ مبارکہ میں وارد درود شریف کے صیغوں میں یہ الفاظ نہیں مل سکے۔ چوں کہ یہ لفظ ایک خاص عقیدہ کے تحت ذکر کیا جاتا ہے، اس لیے اس لفظ کو درود شریف میں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

صحيح البخاري (4 / 84):
"باب قول الله تعالى: {فأن لله خمسه وللرسول} [الأنفال: 41] " يعني: للرسول قسم ذلك " قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما أنا قاسم وخازن والله يعطي".
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (2 / 51):
" بل أَنا قَاسم فَقَط، وَمَعْنَاهُ أَنا أقسم بَيْنكُم، فَألْق] إِلَى كل وَاحِد مَا يَلِيق بِهِ، وَالله يوفق من يَشَاء مِنْكُم لفهمه والتفكر فِي مَعْنَاهُ. وَقَالَ التوربشتى: إعلم أَن النَّبِي عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام  أعلم أَصْحَابه أَنه لم يفضل فِي قسْمَة مَا أوحى الله إِلَيْهِ أحداً من أمته على أحد، بل سوَّى فِي الْبَلَاغ وَعدل فِي الْقِسْمَة، وَإِنَّمَا التَّفَاوُت فِي الْفَهم وَهُوَ وَاقع من طَرِيق الْعَطاء، وَلَقَد كَانَ بعض الصَّحَابَة، رَضِي الله عَنْهُم، يسمع الحَدِيث فَلَايفهم مِنْهُ إلاّ الظَّاهِر الْجَلِيّ، ويسمعه آخر مِنْهُم، أَو من بعدهمْ، فيستنبط مِنْهُ مسَائِل كَثِيرَة، وَذَلِكَ فضل الله يؤتيه من يَشَاء. وَقَالَ الشَّيْخ قطب الدّين فِي شَرحه: (إِنَّمَا أَنا قَاسم) ، يَعْنِي: أَنه لم يستأثر بِشَيْء من مَال الله، وَقَالَ النَّبِي، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: (مَا لي بِمَا أَفَاء الله عَلَيْكُم إلاَّ الْخمس، وَهُوَ مَرْدُود عَلَيْكُم) . وَإِنَّمَا قَالَ: (أَنا قَاسم) تطييباً لنفوسهم لمفاضلته فِي الْعَطاء، فَالْمَال لله والعباد لله وأَنا قَاسم بِإِذن الله مَاله بَين عباده. قلت: بَين الْكَلَامَيْنِ بونٌ، لِأَن الْكَلَام الأول يشْعر الْقِسْمَة فِي تَبْلِيغ الْوَحْي وَبَيَان الشَّرِيعَة، وَهَذَا الْكَلَام صَرِيح فِي قسْمَة المَال. وَلكُل مِنْهُمَا وَجه. أما الأول: فَإِن نظر صَاحبه إِلَى سِيَاق الْكَلَام فَإِنَّهُ أخبر فِيهِ أَن من أَرَادَ الله بِهِ خيرا يفقهه فِي الدّين، أَي: فِي دين الْإِسْلَام. قَالَ الله تَعَالَى: {إِن الدّين عِنْد الله الْإِسْلَام} (آل عمرَان: 19) وَقيل: الْفِقْه فِي الدّين الْفِقْه فِي الْقَوَاعِد الْخمس، ويتصل الْكَلَام عَلَيْهَا فِي الْأَحْكَام الشَّرْعِيَّة، ثمَّ لما كَانَ فقههم متفاوتاً لتَفَاوت الأفهام أَشَارَ إِلَيْهِ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بقوله: (إِنَّمَا أَنا قَاسم) . يَعْنِي هَذَا التَّفَاوُت لَيْسَ مني، وَإِنَّمَا الَّذِي هُوَ مني هُوَ الْقِسْمَة بَيْنكُم يعْنى: تَبْلِيغ الْوَحْي إِلَيْهِم من غير تَخْصِيص بِأحد، والتفاوت فِي أفهامهم من الله تَعَالَى، لِأَنَّهُ هُوَ الْمُعْطِي، يُعْطي النَّاس على قدر مَا تعلّقت بِهِ إِرَادَته، لِأَن ذَلِك فضل مِنْهُ يؤتيه من يَشَاء. وَأما الثَّانِي: فَإِن نظر صَاحبه إِلَى ظَاهر الْكَلَام، لِأَن الْقِسْمَة حَقِيقَة تكون فِي الْأَمْوَال، وَلَكِن يتَوَجَّه هُنَا السُّؤَال عَن وَجه مُنَاسبَة هَذَا الْكَلَام لما قبله، وَيُمكن أَن يُجَاب عَنهُ بِأَن مورد الحَدِيث كَانَ وَقت قسْمَة المَال حِين خصص، عَلَيْهِ السَّلَام، بَعضهم بِالزِّيَادَةِ لحكمة اقْتَضَت ذَلِك، وخفيت عَلَيْهِم، حَتَّى تعرض مِنْهُم بِأَن هَذِه قسْمَة فِيهَا تَخْصِيص لناس، فَرد عَلَيْهِم النَّبِي، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، وَبِقَوْلِهِ: (من يرد الله بِهِ) إِلَى آخِره ... ، يَعْنِي: من أَرَادَ الله بِهِ خيرا يوفقه وَيزِيد لَهُ فِي فهمه فِي أُمُور الشَّرْع، وَلَا يتَعَرَّض لأمر لَيْسَ على وفْق خاطره، إِذْ الْأَمر كُله لله، وهوالذي يُعْطي وَيمْنَع، وَهُوَ الَّذِي يزِيد وَينْقص، وَالنَّبِيّ، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، قَاسم وَلَيْسَ بمعط حَتَّى ينْسب إِلَيْهِ الزِّيَادَة وَالنُّقْصَان، وَعَن هَذَا فسر أَصْحَاب الْكَلَام الثَّانِي قَوْله عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: (وَالله يُعْطي) بقَوْلهمْ: أَي: من قسمت لَهُ كثيرا فبقدر الله تَعَالَى، وَمَا سبق لَهُ فِي الْكتاب، وَكَذَا من قسمت لَهُ قَلِيلا فَلَا يزْدَاد لأحد فِي رزقه، كَمَا لَا يزْدَاد فِي أَجله. وَقَالَ الدَّاودِيّ: فِي قَوْله: (إِنَّمَا أَنا قَاسم وَالله يُعْطي) ، دَلِيل على أَنه إِنَّمَا يُعْطي بِالْوَحْي، ثمَّ قَالَ فِي آخر كَلَامه: إِن شَأْن أمته الْقيام على أَمر الله إِلَى يَوْم الْقِيَامَة، وهم الَّذين أَرَادَ الله بهم خيرا، حَتَّى فقهوا فِي الدّين، ونصروا الْحق وَلم يخَافُوا مِمَّن خالفهم، وَلَا أَكثر ثوابهم". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں