مندرجہ ذیل کلمات کس لیے پڑھے جاتے ہیں ؟کیایہ پڑھنا درست ہے؟
"بِسْمِ الْلّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ عَلِیْقًامَلِیْقًا خَالِقًا مَخْلُوْقًا كَافِیًا شَافِیًا اِرْتَضٰی مُرْتَضٰی بِحَقِّ يَا بُدُّوْحُ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاءٌوَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَایَزِیْدُالظَّالِمِیْنَ اِلّا خَسَارًا بِحَقِّ اٰسًا طَاسًا لَاسًا لُوْسًا یَا شِیْخ عَبْدُالْقَادِرُ الْجِیْلَانِیْ شَیئًا لِلْٰهِ فِیْ سَبِیْلِ الْلّٰهِ".
مذکورہ کلمات میں بعض کلمات مبہم ہیں، جن کے معانی کی تعیین نہیں ہے، نیز بعض کلمات غیراللہ سے استمداد پر دلالت کرتے ہیں؛ اس لیے مذکورہ وظیفہ پڑھنا درست نہیں۔
البتہ ان کلمات میں سے’’بِسْمِ الْلّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ ، سورہ بنی اسرائیل کی آیت کریمہ {وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاءٌوَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَایَزِیْدُالظَّالِمِیْنَ اِلّا خَسَارًا} اوراہلِ علم کی تحقیق کے مطابق ’’یا بَدُوح‘‘ (حرف ’’ب‘‘کے زبر اور ’’د‘‘کے پیش کے ساتھ بغیر تشدید کے)پڑھنا درست ہے۔ (امدادالمفتیین،2/215دارالاشاعت کراچی)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200872
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن