ترکی کا ذکر احادیث میں ہے کہ نہیں؟
’’ترک‘‘ قوم کا ذکر احادیث میں ہے، اور ان کی کچھ ظاہری علامات بھی رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہیں، لیکن ان روایات میں ’’ترک‘‘سے مراد ’’ترکی‘‘ ملک نہیں ہے، البتہ ’’ترکی‘‘(ملک) میں واقع ’’قسطنطینیہ‘‘ (موجودہ استنبول) سے متعلق احادیث میں تذکرہ موجود ہے، جہاں تک ’’ترک‘‘ سے متعلق احادیث ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
"حَدَّثَنَا عَلِيٌّ أَخْبَرَنَا وَرْقَاءُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا التُّرْكَ: صِغَارَ الْعُيُونِ، حُمْرَ الْوُجُوهِ، ذُلْفَ الْأُنُوفِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ". (مسند احمد)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کرلو، ان کے چہرے سرخ، ناکیں چپٹی ہوئی، آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور ان کے چہرے چپٹی ہوئی کمان کی مانند ہوں گے۔
"وعنه (عن أبي هریرة) قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاتقوم الساعة حتى تقاتلوا قوماً نعالهم الشعر، وحتى تقاتلوا الترك: صغار الأعين، حمر الوجوه، ذلف الأنوف، كأن وجوههم المجان المطرقة". (مشکاة)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت اس دن تک نہیں آئے گی جب تک تم اس قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کی پاپوشیں بال دار چمڑے کی ہوں گی، اور جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے جن کی آنکھیں چھوٹی، چہرے سرخ اور ناکیں بیٹھی ہوئی ہوں گی ، گویا ان کے منہ چمڑے کی تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔ (بخاری ومسلم)
ترکوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا سلسلہ نسب ’’یافث بن نوح‘‘ سے چلا تھا، ان لوگوں کے مورثِ اعلیٰ کا نام ’’ترک‘‘ تھا، اس سے پوری قوم کو ’’ترک‘‘ کہا جانے لگا۔
"وعن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: دعوا الحبشة ما ودعوكم، واتركوا الترك ما تركوكم . رواه أبو داود والنسائي".
ترجمہ: نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: تم حبشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں، اور ترکوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں ۔ (ابو داؤد ، نسائی)
تشریح:
’’ یہاں ایک یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ آیت {وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَا فَّةً} [9- التوبة: 36] (یعنی مشکرین سے قتال کرو وہ جہاں کہیں بھی ہوں) پس جب اس حکم میں عموم ہے تو حبشیوں اور ترکوں کے بارے میں حضور ﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ، یعنی ان پر حملہ نہ کرو اور ان کے ملکوں اور شہروں پر چڑھائی سے گریز کرو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حبشہ اور ترک کا معاملہ اس آیت کے عمومی حکم سے خارج اور مخصوص استثنائی نوعیت رکھتا تھا؛ کیوں کہ جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے یہ دونوں ملک اس زمانے کی اسلامی طاقت کے مرکز سے بہت دور دراز فاصلے پر واقع تھے اور اسلامی چھاؤ نیوں اور ان ملکوں کے درمیان دشت وبیاباں کا ایک ایسا دشوار گزار سلسلہ حائل تھا، جس کو عام حالات میں عبور کرنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا حضور ﷺ نے اس بنا پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان دونوں ملکوں کے خلاف کوئی اقدامی کاروائی نہ کی جائے اور ان لوگوں سے اس وقت تک کوئی تعرض نہ کیا جائے جب تک کہ وہ خود تم سے چھیڑ نہ نکا لیں، پس اگر وہ تمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں اور اپنی فوج وطاقت جمع کر کے مسلمانوں کے شہروں اور اسلامی مراکز پر چڑھ آئیں تو اس صورت میں ان کے خلاف نبرد آزما ہو جانا اور ان کے ساتھ جنگ وقتال کرنا فرض ہوگا۔ یا ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ حضور ﷺ نے جو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت اور اس قدر ذرائع نہیں تھے کہ وہ اتنے دور دراز علاقوں تک اسلام کی پیش رفت کو بڑھاتے ، چنانچہ بعد میں جب مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اسلام کو طاقت میسر ہوگئی تو حضور ﷺ کا یہ حکم منسوخ قرار پا گیا‘‘۔
رہی بات ’’ترکی‘‘ کے شہر ’’قسطنطینہ ‘‘ کی، تو اس سے متعلق حدیث میں درج ذیل ذکر موجود ہے :
"عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عمران بيت المقدس خراب يثرب، وخراب يثرب خروج الملحمة، وخروج الملحمة فتح قسطنطينية، وفتح قسطنطينية خروج الدجال. رواه أبو داود".
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: بیت المقدس کا پوری طرح آباد ہو جانا مدینہ منورہ کی خرابی کا باعث ہوگا، اور مدینہ منورہ کی خرابی، فتنے اور سب سے بڑی جنگ کے وقوع پذیر ہونے کا سبب ہوگا اور اس سب سے بڑی جنگ کا وقوع پذیر ہونا قسطنطنیہ کے فتح ہونے کا باعث ہوگا اور قسطنطنیہ کا فتح ہونا دجال کے ظاہر ہونے کا سبب اور اس کی علامت ہوگا۔ (ابو داؤد) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200007
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن