بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

13 سال کے بچے کے پیچھے تراویح کا حکم


سوال

١٣ سال عمر کے  بچہ کے پیچھے نماز تراویح ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

فرض  اور نفل نماز (تراویح وغیرہ) میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ امام کی اقتدا  میں بالغ مقتدیوں کی  نماز  ادا نہیں ہوگی، ہاں نابالغ  لڑکا اپنے جیسے نابالغ بچوں کی امامت کرلے تو اس میں مضائقہ نہیں۔

بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات  ظاہر ہوجائیں تو  وہ امامت کرسکتاہے، علامات ظاہر نہ ہوں تو  قمری اعتبار سے پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا امامت نہیں کراسکتا،  فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ لڑکے میں کم سے کم بارہ سال کی عمر میں بلوغت کی علامات معتبر ہیں، اس سے پہلے نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں  اگر بچہ کی علاماتِ بلوغت واضح ہو چکی ہیں، تو  اس کے پیچھے  تراویح کی نماز   پڑھنا جائز ہے ، اور اگر علامتِ بلوغت ظاہر نہیں ہوئی، تو   اس کے پیچھے  بالغ مقتدی نماز  نہیں پڑھ  سکتے ہیں،جب تک کہ اس کی عمر  قمری پندرہ سال کی نہ ہوجائے۔

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز، كذا في الخلاصة ... المختار أنه لايجوز في الصلوات كلها، كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق."

(کتاب الصلوة، الباب الخامس فی الإمامة، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماما لغیرہ ج:1  ص:85 ط: دار الفکر بیروت)

حلبی کبیر میں ہے:

"وإذا بلغ الصبي عشر سنین فأمّ البالغین في التراویح یجوز، وذکر بعض الفتاویٰ أنه لا یجوز و هو المختار، وقال شمس الأئمه السرخسي: و هو الصحیح."

(حلبي کبیر: ص: ٤٠٨) 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قالوا: إذا استكمل الغلام أو الجارية خمس عشرة سنةً كان بالغًا، وبه قال الشافعي وأحمد وغيرهما، وإذا احتلم واحد منهما قبل بلوغه هذا المبلغ بعد استكمال تسع سنين يحكم ببلوغه، وكذلك إذا حاضت الجارية بعد تسع ولا حيض ولا احتلام قبل بلوغ التسع. وفي الهداية: بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال إذا وطئ، فإن لم يوجد ذلك فحتى يتم له ثمان عشرة سنة، وبلوغ الجارية بالحيض والاحتلام والحبل؛ فإن لم يوجد ذلك فحتى يتم لها سبع عشرة سنة، وهذا عن أبي حنيفة رحمه الله، وقالا إذا تم للغلام والجارية خمس عشرة سنة فقد بلغا، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وهو قول الشافعي رحمه الله اهـ. وأول وقت بلوغ الغلام عندنا استكمال اثنتي عشرة سنة، وتسع سنين للجارية."

( كتاب النكاح، باب بلوغ الصغير و حضانته في الصغر، ٦ / ٢٢٠٨، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں