چھوٹا بچہ جس کی عمر 12 سال ہے کیا وہ تراویح کی جماعت کرا سکتا ہے؟
واضح رہے كہ بالغ افراد کی فرض اورنفل (تراویح)نمازوں کی امامت کے لیے امام کابالغ ہو نا ضروری ہے، 12 سال كی عمر كے بچے میں اگر بالغ ہونے کی کوئی علامت پائی جائے،پھر تو وہ بالغ افراد کی تراویح میں امامت کر اسکتا ہے اوراگر بالغ ہونے کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو وہ نابالغ ہو نے کی وجہ سے بالغ افراد کی تراویح میں امامت نہیں کراسکتا ،البتہ نابالغ بچوں کی امامت کراسکتاہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز. كذا في الخلاصة وعلى قول أئمة بلخ يصح الاقتداء بالصبيان في التراويح والسنن المطلقة. كذا في فتاوى قاضي خان المختار أنه لا يجوز في الصلوات كلها. كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق."
(كتاب الصلاة ، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره ،1/ 85 ، ط : دار الفکر )
تبیین الحقائق میں ہے:
"(وفسد اقتداء رجل بامرأة أو صبي)...ولنا قول ابن مسعود رضي الله عنه لا يؤم الغلام الذي لا تجب عليه الحدود وعن ابن عباس لا يؤم الغلام حتى يحتلم؛ ولأنه متنفل فلا يجوز أن يقتدي به المفترض."
( کتاب الصلوۃ ، باب الإمامة : الأحق بالإمامة ،1/ 140، ط : دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102298
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن