مجھےآپ سےکچھ سوالات کےجوابات درکارہیں:
پہلاسوال یہ ہےکہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبرمبارک میں حیات ہیں؟
دوسراسوال :12ربیع الاول کوکھیربنانا،بانٹنایاکچھ اورتقسیم کرناجائزہے؟
تیسراسوال :لوگ گھروں میں بھی یہ چیزیں بھیج دیتےہیں ،پھرہم بچوں کوکھلاتےہیں،کیایہ جائزہے؟دراصل میں ایک بیوہ خاتون ہوں،میرےچاروں طرف بریلوی آباد ہیں ،کئی مرتبہ میں نےان کوسمجھانےکی کوشش کی ،مگروہ نہیں مانتےہیں۔
چوتھاسوال یہ ہےکہ میں نےان سےکہاتھاکہ تم یہ خوشی پوراسال کیوں نہیں مناتے؟جب کہ ہمیں توپوراسال فخرہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارےنبی ہیں،اب میں نے جوکہاہےوہ صحیح ہےیاغلط؟
پانچواں سوال یہ ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں اپنی قبرمبارک میں حیات ہیں یانہیں ؟اس کی تفصیل بیان فرمائیں۔
1:اہلسنت والجماعت کااجماعی عقیدہ ہے،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح اپنےجسدِعنصری کےساتھ اپنی قبرمبارک میں حیات ہیں،جو قریب سےسلام کہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسےخودسنتےہیں اورجودورسےسلام بھیجے،تو فرشتے کےذریعہ پہنچایاجاتاہے۔
2:کھیربنانا،شیرہ بنانااورلوگوں میں تقسیم کرناپوراسال جائزہے،اس کےلیےکسی دن کومتعین کرکےاسی دن کےساتھ خاص کرناجائزنہیں ہے۔
3:صورتِ مسئولہ میں اگرآپ محتاج ہیں ،توآپ خودبھی کھاسکتی ہیں اوربچوں کوبھی کھلاسکتی ہے۔نیز اہل بدعت سے آئی مشکوک چیز خود نہ کھانا بہتر ہے۔
4:آپ کاان سےیہ بات کہنادرست ہے۔
5:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاپنےروضۂ مبارک میں حیات ہونےکےبارےمیں اہلسنت والجماعت کےاتفاقی واجماعی عقیدےکےمطابق تفصیل یہ ہےکہ:
حیات النبی ﷺ بلکہ حیات انبیاء علیہم السلام اورشہداء تو نصوصِ قرآنی ، احادیث اور آثار کثیرہ سے ثابت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور شہداء کی ارواح کا تعلق وربط اپنے اجسادعنصریہ کے ساتھ حیات دنیویہ کی طرح ہے، بلکہ اس سے بھی قوی تر ہے، فرق یہ ہے کہ دنیوی حیات کو ہم محسوس کرتے ہیں، اوربعداز وفات حیات کو ہم محسوس نہیں کرپاتے، لیکن نصوص وروایات سے جب معلوم ہوگیا ہے کہ وہ زندہ اور حیات ہیں، اگرچہ ہم محسوس نہیں کرتے ، لہٰذا ا س پر ایمان وعقیدہ ضروری اور واجب ہے۔
اسی حیات النبی اور حیاتِ انبیاء کے حوالے سے "حیاۃ النبی" کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ ان کی حیات شہداء اور دوسرے مؤمنین کی حیات کے مقابلہ میں جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ بعض احکامِ شرعیہ میں وہ شہداء اور دوسرے مؤمنین سے بھی ممتاز ہیں۔
1: مثلاً :انبیاء علیہم السلام کی وفات کے بعد ان کی جائیداد میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کے اموال وارثوں میں تقسیم نہیں کیے جاتے۔
2: انبیاء علیہم السلام کی وفات کے بعد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے کسی کا نکاح درست نہیں، جب کہ شہداء اور بعض دوسرے مؤمنین بھی حیات ہوتے ہیں،مگر شہداء اور دوسرے ایمان داروں کی ازواج سے عدت کے بعد دوسرے مسلمانوں کا نکاح درست ہے، ان کے مال میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔
3: انبیاء علیہم السلام کے اجسامِ مبارکہ کو مٹی نہ کھاسکتی ہے ، نہ فناکرسکتی ہے، وہ اجسام ِدنیویہ کے ساتھ قبر میں محفوظ اور حیات ہوتے ہیں ، یہی تمام علمائے اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ، اور جماعت علمائے دیوبند کا بھی عقیدہ ہے۔
مرقات المفاتیح میں ہے:
"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ومن صلى علي عند قبري سمعته» ) : أي [سمعا] حقيقيا بلا واسطة، قال الطيبي: هذا لا ينافي ما تقدم من النهي عن الاعتياد الدافع عن الحشمة، ولا شك أن الصلاة في الحضور أفضل من الغيبة. انتهى، لأن الغالب حضور القلب عند الحضرة والغفلة عند الغيبة، (" ومن صلى علي نائيا ") ، أي: من بعيد كما في رواية: أي بعيدا عن قبري (" أبلغته ") : وفي نسخة صحيحة: بلغته من التبليغ، أي: أعلمته كما في رواية، والضمير راجع إلى مصدر صلى كقوله تعالى: {اعدلوا هو أقرب للتقوى}، (رواه البيهقي في شعب الإيمان) : قال ميرك نقلا عن الشيخ: ورواه أبو الشيخ، وابن حبان في كتاب: ثواب الأعمال، بسند جيد."
(كتاب الصلاة، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم وفضلها، ج:2،ص:749، ط:دار الفكر)
فتح الباری میں ہے:
"عن ابن عباس في حديث الباب من الزيادة وأما موسى فرجل آدم جعد على جمل أحمر مخطوم بخلبة، كأني أنظر إليه إذا انحدر في الوادي وهذا مما يزيد الإشكال. وقد قيل عن ذلك أجوبة: أحدها أن الأنبياء أفضل من الشهداء والشهداء أحياء عند ربهم فكذلك الأنبياء، فلا يبعد أن يصلوا ويحجوا ويتقربوا إلى الله بما استطاعوا ما دامت الدنيا وهي دار تكليف باقية.
ثانيها: أنه صلى الله عليه وسلم أري حالهم التي كانوا في حياتهم عليها فمثلوا له كيف كانوا وكيف كان حجهم وتلبيتهم، ولهذا قال أيضا في رواية أبي العالية، عن ابن عباس عند مسلم كأني أنظر إلى موسى، وكأني أنظر إلى يونس.
ثالثها: أن يكون أخبر عما أوحي إليه صلى الله عليه وسلم من أمرهم وما كان منهم. فلهذا أدخل حرف التشبيه في الرواية، وحيث أطلقها فهي محمولة على ذلك والله أعلم.
الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون. أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد، وقد وثقه أحمد، وابن حبان، عن الحجاج الأسود وهو ابن أبي زياد البصري، وقد وثقه أحمد، وابن معين، عن ثابت عنه، وأخرجه أيضا أبو يعلى في مسنده من هذا الوجه."
(كتاب أحاديث الأنبياء، ج:6، ص:487، ط:دار المعرفة)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"لأن الصدقة حق الفقراء والمساكين."
(كتاب الزكاة، باب ما يوضع فيه الخمس، ج:3، ص:18، ط:دار المعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101802
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن