اگر کسی جگہ قربانی کا حصہ 12000 روپے یا اس سے زیادہ ہو ،اور میں اسے 15000 روپے یا اس سے اوپر کوئی کمیشن رکھ کے بیچوں تو کیا یہ منافع حلال ہو گا؟
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اجتماعی قربانی میں 12000 کا حصہ اپنے لیے خریدا ،تواس سے وہ حصہ سائل کی طرف سےقربانی کے لیے متعین ہو گیا تھا ،لہذا سائل کا اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ،اگر سائل نے اس کو آگے مذکورہ پیسوں (15000 )میں فروخت کیا تو اس میں جو نفع ہو گا (3000) ہزار روپے اس کو صدقہ کرنا لازم ہو گا ،اور اگر سائل نے کسی شخص سے یہ بات طے کر لی کہ میں آپ کی قربانی کرادوں گا ،لیکن اس پر اضافی رقم اپنی محنت کی لوں گا ،تو ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے طے شدہ اجرت لینا جائز ہو گا ۔
بدائع الصنائع میں :
"أن المشتراة للأضحية متعينة للقربة إلى أن يقام غيرها مقامها فلا يحل الانتفاع بها ما دامت متعينة ولهذا لا يحل له لحمها إذا ذبحها قبل وقتها....ويكره له بيعها لما قلنا، ولو باع جاز في قول أبي حنيفة ومحمد - عليهما الرحمة - لأنه بيع مال مملوك منتفع به مقدور التسليم وغير ذلك من الشرائط فيجوز، وعند أبي يوسف - رحمه الله - لا يجوز؛ لما روي عنه أنه بمنزلة الوقف ولا يجوز بيع الوقف ثم إذا جاز بيعها على أصلهما فعليه مكانها مثلها أو أرفع منها فيضحي بها فإن فعل ذلك فليس عليه شيء آخر، وإن اشترى دونها فعليه أن يتصدق بفضل ما بين القيمتين ولا ينظر إلى الثمن وإنما ينظر إلى القيمة حتى لو باع الأولى بأقل من قيمتها واشترى الثانية بأكثر من قيمتها وثمن الثانية أكثر من ثمن الأولى يجب عليه أن يتصدق بفضل قيمة الأولى، فإن ولدت الأضحية ولدا يذبح ولدها مع الأم كذا ذكر في الأصل."
(كتاب الأضحية ،ج:5 ،ص:78 ،ط:رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144412100173
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن