بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

120 دن سے کم میں اسقاط حمل کی گنجائش اور سائنسی تحقیق


سوال

 دارالافتاء کے تمام فتاوی جات پڑھنے کے بعد بھی ایک الجھن حل نہیں ہو پارہی کہ اسقاط حمل سے متعلق یہ فتاوی دیے گئے ہیں کہ  120  دن سے پہلے اسقاط بحالتِ  مجبوری جائز ہے، جب کہ جدید سائنس اب اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ  8  سے  12  ہفتے بالترتیب 56 سے 84 یوم کا حمل جب ساقط کیا جاتا ہے تو وہ درد  کو  کسی جوان آدمی کی طرح محسوس کرتا ہے،  علاوہ  ازیں  ہمیں حدیث سے بھی اس بات کا علم ہوتا ہے  42  دن کے بعد روح پھونکنے کا عمل کیا جاتا ہے، تو  کیا پھر بھی جنین کے اسقاط کے لیے  120  دن کی لچک دکھائی جا سکتی ہے؟

جواب

حمل کو  چار  ماہ یعنی 120 دن گزرنے کے بعد چوں کہ اللہ رب العزت اس  میں روح  ڈال دیتا ہے؛ جس کی  وجہ  سے ایسے حمل کا اسقاط حرام ہے، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے زندہ بچے کو درگور کردیا جائے۔

کیوں کہ چار مہینے  سے  پہلے  روح بھی نہیں پڑتی؛  لہذا  وہ  جاندار کے حکم میں بھی نہیں آتا اور اسی وجہ سے انتہائی شدید ضرورت کی  بنا پر اس کو  ساقط کرنے کی گنجائش دی جاتی ہے،   ہاں چار مہینے سے پہلے نطفہ میں بڑھوتری  ضرور ہوتی ہے،  لیکن اس کو حمل کی زندگی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس کا ضرورت کی وجہ سے ساقط کرنا قتل کے زمرے میں آئے گا۔

جہاں تک تعلق ہے ان سائنسی تحقیقات کا جو یہ بتاتی ہیں کہ پچاس یا چھپن دن کا نطفہ بھی  قتل کے درد کو ایسے ہی محسوس کرتا ہے  جیسا کہ کوئی جواں مرد  تو اس کے بارے میں  وضاحت یہ ہے کہ حدیث پاک میں واضح طور پر یہ بتلایا گیا ہے کہ   ایک سو بیس دن کے بعد  نطفہ  میں روح پڑتی ہے ، جب کہ ابتدا  میں چالیس دن تک نطفہ  کی شکل میں ، پھر چالیس دن تک خون کے لوتھڑے کی شکل میں  اور اس کے ، بعد چالیس دن تک گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا ہے، پھر اس کے بعد روح پڑتی ہے؛  لہٰذا   جب حدیث  میں اس مدت کی صراحت موجود ہے، اور فقہاء و محدثین کرام نے اسے قبول کرکےشدید ضرورت کے وقت چار ماہ سے پہلے اسقاط کی گنجائش دی ہے، تو اس کے مقابلے میں سائنسی تحقیق معتبر نہیں ہے، نیز  اگر دیکھا جائے تو کائنات کی تقریبًا ہر چیز میں ہی اپنی نوع کی حیات ہے،  اسی طرح نطفے میں بھی آثارِ حیات ہوتے ہیں، اور نطفہ بے محل ضائع کرنا بھی گناہ ہے، اور اس حیثیت سے کہ یہ مستقبل میں اولاد کا سبب بن سکتاہے اس کے ضیاع  سے احادیث میں منع کیا گیا ہے، اور عزل کو "وأدِ خفی"  (پوشیدہ طور پر زندہ درگور کرنا) قرار دیا گیا ہے، لیکن  انسانی جان کی حرمت  نطفے کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اس پر چار ماہ گزریں، تب اسے مارنا قتلِ انسان کی طرح ہوگا،  بہرحال بلاعذر اسقاطِ حمل چار ماہ سے پہلے بھی درست نہیں ہے، شدید ضرورت ہو تو اس کی گنجائش ہے، اور یہ قتل کی حرمت میں داخل نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ يَسَعُهَا أَنْ تُعَالَجَ لِإِسْقَاطِ الْحَبَلِ مَا لَمْ يَسْتَبِنْ شَيْءٌ مِنْ خَلْقِهِ وَذَلِكَ مَا لَمْ يَتِمَّ لَهُ مِائَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا ثُمَّ إذَا عَزَلَ وَظَهَرَ بِهَا حَبَلٌ هَلْ يَجُوزُ نَفْيُهُ؟ قَالُوا إنْ لَمْ يَعُدْ إلَى وَطْئِهَا أَوْ عَادَ بَعْدَ الْبَوْلِ وَلَمْ يُنْزِلْ جَازَ لَهُ نَفْيُهُ وَإِلَّا فَلَا، كَذَا فِي التَّبْيِينِ."

(كتاب النكاح، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي نِكَاحِ الرَّقِيقِ، ١ / ٣٣٥، ط: دار الفكر)

التفسير المظهري (6 / 369):

عن ابن مسعود قال حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق ان خلق أحدكم يجمع في بطن امه أربعين يوما نطفة ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله اليه ملكا بأربع كلمات فيكتب عمله واجله ورزقه وشقى او سعيد ثم ينفخ فيه الروح.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1 / 151):

82 - وعن ابن مسعود رضي الله عنه، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو الصادق المصدوق: ( «إن خلق أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما نطفة، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله إليه ملكا بأربع كلمات: فيكتب عمله، وأجله، ورزقه، وشقي، أو سعيد، ثم ينفخ فيه الروح فوالذي لا إله غيره إن أحدكم يعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه، وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل أهل النار فيدخلها. وإن أحدكم ليعمل بعمل أهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل أهل الجنة فيدخلها» ) . متفق عليه.

82 - (وعن ابن مسعود) : رضي الله عنه (قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو الصادق المصدوق) : الأولى أن تجعل هذه الجملة اعتراضية لا حالية لتعم الأحوال كلها، وأن يكون من عادته ذلك فما أحسن موقعه هاهنا. ومعناه الصادق في جميع أفعاله حتى قبل النبوة لما كان مشهورا فيما بينهم بمحمد الأمين. المصدوق في جميع ما أتاه من الوحي الكريم صدقه زيد راست كفت باوزيد. قال النبي صلى الله عليه وسلم في أبي العاص بن الربيع: (فصدقني) . وقال في حديث أبي هريرة ( «صدقك وهو كذوب» ) ، وقال علي رضي الله عنه للنبي صلى الله عليه وسلم في حديث الإفك: «سل الجارية تصدقك» ، ونظائره كثيرة. كذا قال السيد جمال الدين، وفيه رد على ما قيل: إن الجمع بينهما تأكيد إذ يلزم من أحدهما الآخر، اللهم إلا أن يخص به. (إن خلق أحدكم) : بكسر الهمزة فتكون من جملة التحديث، ويجوز فتحها أي: مادة خلق أحدكم، أو ما يخلق منه أحدكم (يجمع في بطن أمه) أي: يقرر ويحرز في رحمها. وقال في النهاية: ويجوز أن يريد بالجمع مكث النطفة في الرحم (أربعين يوما) : يتخمر فيها حتى يتهيأ للخلق. قال الطيبي: وقد روي عن ابن مسعود في تفسير هذا الحديث: أن النطفة إذا وقعت في الرحم فأراد الله أن يخلق منها بشرا طارت في بشرة المرأة تحت كل ظفر وشعر، ثم تمكث أربعين ليلة، ثم تنزل دما في الرحم فذلك جمعها، والصحابة أعلم الناس بتفسير ما سمعوه، وأحقهم بتأويله، وأكثرهم احتياطا، فليس لمن بعدهم أن يرد عليهم. قال ابن حجر: والحديث رواه ابن أبي حاتم، وغيره، وصح تفسير الجمع بمعنى آخر، وهو تضمنه قوله عليه الصلاة والسلام: ( «إن الله تعالى إذا أراد خلق عبد فجامع الرجل المرأة طار ماؤه في كل عرق وعضو منها، فإذا كان يوم السابع جمعه الله، ثم أحضره كل عرق له دون آدم {في أي صورة ما شاء ركبك} [الانفطار: 8] » ، ويشهد لهذا المعنى قوله عليه الصلاة والسلام لمن قال له: ولدت امرأتي غلاما أسود: ( «لعله نزعه عرق» ).

 (نطفة) : حال من فاعل يجمع (ثم يكون) أي: خلق أحدكم (علقة) أي: دما غليظا جامدا. قال ابن حجر أي: ثم عقب هذه الأربعين يكون في ذلك المحل الذي اجتمعت فيه النطفة علقة، والأظهر أن قوله: يكون بمعنى يصير، والضمير إلى ما جمع في بطن أمه نطفة، وقيل: يصير خلقه علقة لأنها إذ ذاك تعلق بالرحم اهـ. وفيه أنه يلزم منه أن الصيرورة في أربعين، وليس كذلك، فالظاهر أن يقدر، ويبقى، أو يمكث (مثل ذلك) : إشارة إلى محذوف أي: مثل ذلك الزمان يعني أربعين يوما (ثم يكون مضغة) أي: قطعة لحم قدر ما يمضغ (مثل ذلك) : ويظهر التصوير في هذه الأربعين."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں