بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ کس طرح بنیں؟


سوال

بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ  کس طرح بنیں، اور باقی اشراق و چاشت وغیرہ یہ نفل کیوں؟ حال آں کہ آپﷺ نے تو انہیں بھی پڑھا اور تہجد کی بھی نماز کی پابندی کرتے تھے۔ اور ان کے بھی فضائل بتائے  ہیں آپ کے ایک فتوی میں ،میں نے  پڑھا کہ سنت مؤکدہ  چھوڑنا گناہ ہے،  دلیل عنایت فرمادیں!

جواب

سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےدن رات میں بارہ رکعات سنتیں پڑھنے کی خود پابندی کی اور تاکید بھی فرمائی ہے، وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں: دو رکعت فجر سے پہلے  ،چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد ،دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد اس طرح کل بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں نیز  سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک بھی جائز نہیں ہے اور باعث گناہ ہے۔  جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے  یہاں درجات سے محروم ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا اندیشہ ہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو  یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گاالبتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً: وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  ہو تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے،  باقی سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل میں پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اگر کوئی پڑھے گا تو اسے ثواب ملے گا اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، تاہم انہیں بالکل نہ پڑھنے کی عادت بنالینا بھی مناسب نہیں ہے۔ جہاں تک تہجد کی بات ہے تو رسول اللہ ﷺ تہجد کا اہتمام فرماتے تھے، تاہم بعض اوقات تہجد چھوٹنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔

سنن الترمذي میں ہے:

"عن ‌عطاء ، ‌عن ‌‌عائشة، ‌قالت: ‌قال ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم: «‌من ‌ثابر» ‌على ‌ثنتي ‌عشرة ‌ركعة ‌من ‌السنة ‌بنى ‌الله ‌له ‌بيتا ‌في ‌الجنة: أربع ركعات قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر."

( أبواب الصلاة، ج:1، ص:439،ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

منحة السلوك في شرح تحفة الملوك  میں ہے:

"(وهي) أي السنن الرواتب (ركعتان قبل الفجر، وأربع قبل الظهر، وركعتان بعدها، وركعتان بعد المغرب، وركعتان بعد العشاء) فهذه اثنتي عشرة ركعةً؛ لما روي عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: "كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الظهر أربعاً وبعدها ركعتين، وبعد المغرب ركعتين، وبعد العشاء ركعتين، وقبل الفجر ركعتين". رواه أبو داود ومسلم وابن حنبل."

‌‌(كتاب الصلاة،فصل في السنن الرواتب وغيرها،ص:144ط:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية  قطر)

البحرالرائق میں ہے:

"سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه."

(كتاب الصلاة،باب الأذان،ج:1،ص:269،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وسن مؤكدا) أي استنانا مؤكدا؛ بمعنى أنه طلب طلبا مؤكدا زيادة على بقية النوافل، ‌ولهذا ‌كانت ‌السنة ‌المؤكدة ‌قريبة ‌من ‌الواجب ‌في ‌لحوق ‌الإثم كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر كما في شرحه وقدمنا بقية الكلام على ذلك في سنن الوضوء."

(كتاب الصلاة،باب الوتر والنوافل،مطلب في السنن والنوافل،ج:2،ص:12،ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں