بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

12 ربیع الاول کو سیرت طیبہ کی تقاریب منعقد کرنا


سوال

ہمارے ہاں ہر سال بارہ ربیع الاول کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریب ہوتی ہے۔ تلاوت ، نعت اور بیان ہوتا ہے ایک مولانا صاحب کہتے تھے کہ بارہ ربیع الاول کی مستقل تعیین اور التزام سے بدعت بن جائے گی ، لوگ اسے دین کا حصہ سمجھیں گے۔ جیسے اہل بدعت کا اس دن میں رویہ ہے،  تو ان کی تائید بھی ہوگی۔ لہذا دن بدل کر یہ تقریب رکھا کریں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری اس ترتیب میں کچھ حرج ہے چھوڑ دی جائے یا بارہ ربیع الاول کو ہی سیرت پروگرام جاری رکھیں، کہ اس دن میں لوگوں کی شرکت بھی شوق و ذوق سے بھرپور ہوتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری امت کے لیے مُحسن ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی سیرت کو اپنانا ایمان کا حصہ ہے۔

 اسی نسبت سے اگر غیرشرعی امور (جیسے ویڈیو تصاویر، بدعات، کسی تاریخ یا دن کا التزام،  لوگوں کی ایذاء رسانی،  نذر و نیاز وغیرہ) سے بچتے ہوئے سیرتِ طیبہ کی تقاریب منعقد کی جائیں، تو یہ باعثِ اجر و ثواب ہے اور مسلمانوں کے لیے سیرتِ طیبہ کے سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا ذریعہ بھی ہے ۔

لیکن سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریب بارہ ربیع الاول کو منعقد کرنے کا التزام کرنا اور اسی مخصوص دن میں اس  کو ضروری سمجھنا درست نہیں ، بلکہ بارہ ربیع الاول کے التزام سے یہ عمل بدعت بن جائے گا، لہٰذا اہل محلہ مخصوص تاریخ کے التزام کے بغیر ربیع الاول کے مہینے میں کسی بھی تاریخ کو یا ربیع الاول کے علاوہ دیگر مہینوں میں کبھی بھی سیرت کی تقریب منعقد کر سکتے ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يؤمن أحدكم حتى ‌أكون ‌أحب ‌إليه من والده وولده والناس أجمعين."

(كتاب الايمان، الفصل الاول، ج:1، ص:10، ط:المكتب الإسلامي)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"فالبدعة إذن عبارة عن: طريقة في الدين مخترعة، تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه. وهذا على رأي من لا يدخل العادات في معنى البدعة، وإنما يخصها بالعبادات، وأما على رأي من أدخل الأعمال العادية في معنى البدعة، فيقول: البدعة: طريقة في الدين مخترعة، تضاهي الشرعية، يقصد بالسلوك عليها ما يقصد بالطريقة الشرعية."

(الباب الأول، ج:1، ص:51، 52، ط؛دار ابن عفان،)

وفيه أيضا:

"ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."

(الباب الأول، ج:1، ص:53، ط؛دار ابن عفان،)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں