بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

12 ریبع الاول کی عیدمناناکیساہے؟


سوال

کیا 12ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانا درست ہے؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا ذکر یا  آپ کے اوصاف ومحاسن اور عبادات ومعاملات کا ذکرحتی  کہ جس چیز کی ادنیٰ نسبت بھی نبی کریم ﷺکی جانب ہو اس کا ذکر  یقیناً فعلِ مستحسن اور باعثِ اجروثواب ہے، یقیناً آپ ﷺ کی دنیا میں آمد دنیا کے لیے ایک نعمت ہے، اندھیروں میں ایک روشنی ہے، ایک مسلمان کا  خوش ہونا فطری امر ہے، جس سے انکار ممکن نہیں، البتہ  اس پر خوش ہونے کا وہی طریقہ اختیار کرنا جائز ہوگا، جو دین وشریعت کے موافق ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہو، اور  صحابہ وتابعین نے اس پر عمل کیا ہو،  یہی آپ ﷺ کی آمد  کے  مقصد  کی حقیقی پیروی ہے،  چوں کہ مروجہ میلاد کا منانا قرآن وحدیث ،صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ ساری چیزیں بعد کے لوگوں کی ایجاد کردہ بدعات میں سے ہیں،لہذا 12 ربیع الاول کو عید منانا درست نہیں ۔

1:سال میں مسلمانوں کے دوہی عیدیں ہیں،12 ربیع الاول کو عید کہنا درست نہیں ۔

2:مروجہ طریقے پر محفلیں منعقد کرنا ،جلوس نکالنااور بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن عید کے نام سے خوشی منانا،مروجہ طریقے پر محفلیں منعقدکرکے کئی دوسری خرافات کادین سے کوئی تعلق نہیں۔

3:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں اکثرمحقق تاریخ دان کاکہنا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8یا 9 ربیع الاول کو ہوئی ، جب کہ اکثرمؤرخین اور سیرت نگاروں کے ہاں آپ کی تاریخِ وفات 12 ربیع الاول ہے، لہذا ایک غیرِ محقق قول کے بنیاد پر 12 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ِولادت کہنا درست نہیں ۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن بلال بن الحارث المزني، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم:"من أحياسنةمن سنتي قدأميتت بعدي،فإن له من الأجرمثل أجورمن عمل بهامن غيرأن ينقص من أجورهم شيئا،ومن ابتدع بدعة ضلالة لا(يرضاها) الله ورسوله،كان عليه(من الإثم)مثل آثام من عمل بهالاينقص من(أوزارهم)شيئا۔۔۔قال: قال رسول الله۔صلى الله عليه وسلم:(من أحياسنة)،أي:من أظهرها وأشاعها بالقول أو العمل۔۔۔(قد أميتت بعدي) ، قال ابن الملك، أي: تركت تلك السنة عن العمل بها يعني من أحياها من بعدي بالعمل بها أو حث الغير على العمل بها (فإن له من الأجر) ، أي: الثواب الكامل (مثل أجور من عمل بها)،قال ابن الملك: يشمل بإطلاقه العمال قبل الإحياءوبعده۔۔۔(ومن ابتدع بدعة ضلالة):يروى بالإضافة،ويجوزأن ينصب نعتاومنعوتا وهي ما أنكره أئمة المسلمين كالبناءعلى القبور وتجصيصها وقيد البدعة بالضلالة لإخراج البدعة الحسنة كالمنارة، كذا ذكره ابن الملك (لا يرضاها الله ورسوله) : صفة كاشفة للضلالة أو احترازية للبدعة (كان عليه من الإثم)،أي: الوزر(مثل آثام من عمل بها لا ينقص ذلك)،أي:ذلك الإثم(من أوزارهم شيئا)۔۔۔وحكمة ذلك أن من كان سببا في إيجاد شيء صحت نسبة ذلك الشيء إليه على الدوام وبدوام نسبته إليه يضاعف ثوابه وعقابه، لأنه الأصل فيه."

(کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ج:1،ص:256/ 257،ط:دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں