بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

11 کھلاڑیوں میں سے 2 کھلاڑیوں کے جوا کھیلنے سے پوری ٹیم پر گناہ کا حکم


سوال

1  : کرکٹ میں 11 کھلاڑی کی ٹیم ہو اور ان میں سے 2 کھلاڑی 1000 روپے کا جوا کھیلیں تو کیا بقیہ 9 بھی گناہ گار ہوں گے؟

2 : جوے کی وعید پر روشنی ڈالیں!

جواب

1 : صورتِ  مسئولہ میں اگر جوا مکمل ٹیم کی جانب سے کھیلا جارہا ہو اور دو کھلاڑی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے  جوا کھیلیں یا دو کھلاڑیوں کے جوے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم پوری ٹیم کے درمیان تقسیم کی جانی ہو، اور بقیہ کھلاڑی بھی اس رقم کے حصول پر راضی ہوں تو مکمل ٹیم گناہ گار ہوگی، البتہ اگر  "جوا"  ٹیم کی جانب سے نہ کھیلا جارہا ہو،  بلکہ دو کھلاڑی ذاتی طور پر جوا کھیلیں  اور دیگر کھلاڑیوں کو اس سے حاصل ہونے والی رقم نہ مل رہی ہو تو مکمل ٹیم گناہ گار نہ ہوگی، بلکہ صرف جوا کھیلنے والے دو کھلاڑی گناہ گار ہوں گے۔

البتہ اگر مقابلہ (میچ) کا انعقاد کرنےوالے کھلاڑی مقابلہ ہی جوئے کی بنیاد پر رکھیں تو اس صورت میں ایسے مقابلہ میں شریک ہونا ہی گناہ کے کام میں معاونت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا، چاہے جوئے والے معاملے میں شرکت ہو یا نہ ہو، لہٰذا ایسے مقابلے میں شریک ہونے والے کھلاڑی اگر جوئے کے معاملے میں شریک نہ ہوں تو اگرچہ ان کو جوئے کا گناہ تو نہیں ملے گا، لیکن گناہ کے کام میں معاونت کا گناہ ضرور ملے گا؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت (مدد) کرنے کا حکم دیا ہے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاونت کرنے سے منع کیا ہے۔

قرآنِ پاک میں ہے:

{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]

ترجمہ: اور ایک دوسرے کی نیک کام اور پرہیزگاری میں مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی پر مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ بیشک اللہ کا سخت عذاب ہے۔ 

2 : جوا کھیلنا حرام ہے،  قرآن کریم میں جوئے کی واضح ممانعت موجود ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[المائدة :۹٠]

ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".     

(احکام القرآن للجصاص، 1/ 398،  باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط ؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں