بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قبر منہدم ہوجائے تو دوسری جگہ قبر بناکر مردے کو دفن کرنا اور دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا


سوال

دس سال پرانی قبر منہدم ہو گئی، اس میں  میت صحیح سلامت تھی ، چوں کہ قبر بالکل سلائیڈ کی وجہ سے منہدم ہو گئی ،لوگوں نے میت کو دوسری جگہ قبر بنا کر دفن کیا اور نماز جنازہ بھی دوبارہ پڑھی، سوال یہ ہے کہ دس سال قبل دفن کی گئی میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مٹی ڈال دینے کے بعد قبرسے میت کا نکالناشرعاً جائز نہیں ہے ، البتہ کسی شدید عذر مثلاً کسی غیر کی زمین میں بلااجازت تدفین کی گئی ہو،  یاغصب شدہ زمین میں مردہ کو دفنایاگیاہوتو اس صورت میں اس قبر کو برابر کردینا یامیت منتقل کرنے کی اجازت ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب  منہدم ہوگئی تھی تو  اسی کو صحیح کرلینا چاہیے تھا ، اگر وہیں قبر صحیح کی جاسکتی تھی تو دوسری جگہ  منتقل  کرنا خلافِ  شرع  تھا،البتہ اب اس کو اسی حالت میں رہنے دیں ،  دوسری قبر  میں ہی مدفون رہنے دیں ۔  نیز میت پر  دوسری مرتبہ جو جنازہ کی نماز پڑھی گئی ہے یہ بھی خلافِ  شرع  ہے ، جب میت پر ایک مرتبہ نماز جنازہ پڑھ لی جائے تو دوسری مرتبہ پڑھنا صحیح  نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.(2/238ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘. (4/486ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَلَا يُصَلَّى عَلَى مَيِّتٍ إلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً وَالتَّنَفُّلُ بِصَلَاةِ الْجِنَازَةِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ، كَذَا فِي الْإِيضَاحِ."

( كتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الْفَصْلُ الْخَامِسُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ، ١/ ١٦٣ - ١٦٤ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144208201288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں