میں ایک دینی مدرسے کا طالب علم ہوں، اس کے ساتھ ساتھ ایک سرکاری یونیورسٹی میں بھی پڑھتا ہوں، جہاں حاضری کے حوالہ سے ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے، کچھ اساتذہ بالکل کلاسز نہیں لیتے، نہ ہی ہمیں کلاسز میں شرکت کی تاکید کرتے ہیں، اس کے بر عکس بعض اساتذہ لازمی طور پر حاضر ہونے کی تاکید کرتے ہیں، جب کہ جامعہ کے قانون کے مطابق تمام طلبہ کو 70 سے 80 فیصد حاضری یقینی بنانا ضروری ہے، مجھے مدرسہ میں چھٹی کی اجازت نہیں ملتی اس لیے بمشکل میری حاضری کا تناسب 10 فیصد سے بھی کم رہتا ہے، یہ تناسب کبھی کبھار 20 سے 25 فیصد تک چلا جاتا ہے، ایسی صورت میں میرے لیے کیا یہ ریگولر ڈگری لینا جائز ہے؟ ہمارے یونیورسٹی کے ایک استاذ کا کہنا ہے کہ یہ دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے، شریعت اسلامیہ اس حوالہ سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جب کہ مذکورہ تعلیمی ادارہ کا ضابطہ 70 سے 80 فی صد حاضری کو یقینی بنانا لازم ہے ٗ ایسی صورت میں سائل کا طے شدہ مقدارِ حاضری سے کم حاضری پر ڈگری لینا شرعاً وعدہ خلافی کے حکم میں ہے اور اگر ریکارڈ میں غیر حاضریاں درست کروائی تو یہ دھوکہ دہی شمار ہوگا،بہر صورت سائل کا ادارے کے ڈگری کے کوائف کو پوراکیے بغیر ڈگری لینا درست نہیں ہے۔
موسوعۃ فقھیہ کویتیہ میں ہے:
"أوجب الإسلام الوفاء بالعهد، والتزمه رسول الله صلى الله عليه وسلم، في جميع عهوده، تحقيقا لقوله تعالى: وأوفوا بعهد الله إذا عاهدتم ونفى الدين عمن لا عهد له فقال صلى الله عليه وسلم لا دين لمن لا عهد له (1) ومن صور التزامه العهد: وفاؤه بالوثيقة التي عقدها لليهود عندما هاجر إلى المدينة، وصلح الحديبية. وغيرهما،ومن صور الوفاء بالعهد. ما يعهد به الحاكم إلى من بعده، كما عهد أبو بكر إلى عمر - رضي الله عنهما - وعهد عمر إلى أهل الشورى رضي الله عنهم (2) ونقض العهد محرم قطعا."
(عهد،ج:31،ص:34،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144504101267
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن