بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سو روپے کے چیز کو سات سو روپےمیں بیچنے کا حکم


سوال

سو روپیہ کی دوائی کو سات سو روپیہ میں سیل کرنا کیسا ہے، اگرچہ یہ اتنی مؤ ثر ہو جتنی کے سات سو والی ہوتی ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں  اگر دوائی کی قیمت(نرخ نامہ) حکومت کی جانب سے مقرر ہے، تو پھر اس مقررہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا  نرخ نامہ کی خلاف ورزی ہے جوکہ ناجائز ہے۔اگر  نرخ نامہ مقرر نہیں ہے توبھی اتنا زیادہ  نفع لینا مروت کے  سخت خلاف ہے۔

مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان ‌وقت ‌البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها."

( ‌‌المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، ص:33، ط: نور محمد،آرام باغ، كراتشي )

البحرالرائق میں ہے:

"قوله (والزيادة فيه) أي صحت الزيادة في الثمن (والحط منه) أي من الثمن، ويلتحقان بأصل العقد عندنا۔۔۔ ولنا أنهما بالحط والزيادة يغيران العقد من وصف مشروع إلى وصف مشروع، وهو كونه رابحا أو خاسرا أو عدلا، ولهما ولاية الرفع فأولى أن يكون لهما ولاية التغيير۔"

(كتاب البيع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل فی بیان التصرف فی المبیع والثمن، ج:6، ص:129، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المرابحة ‌بيع ‌بمثل ‌الثمن الأول وزيادة ربحا..... والكل جائز كذا في المحيط..... ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين..... والأصل أن ‌عرف التجار معتبر في بيع المرابحة."

(كتاب البيوع، الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية والوضيعة، ج:3، ص:160،161، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں