ہماری کمپنی گلوبل ایکسپورٹ میں بعض چیزوں کو بنوانے کا طریقےکار یہ ہوتا ہے کہ ہم مال بنوانے کا آرڈر دے دیتے ہیں جب کہ سامنے بنانے والا ہم سےحتمی رقم طے نہیں کرتا اور تقریباً پانچ یا سات دن گزر جانے کے بعد وہ رقم طےکرتا ہے، مثال کے طور پر معاملہ دس ہزار 10,000 پر کیا، لیکن پانچ سات دن گزرجانے کے بعد وہ 12,000بارہ ہزار روپے کردے۔ اب پوچھنا یہ ہے کے اس معاملے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ہم پر لازم ہے کہ ہم اس چیز کو 12,000 بارہ ہزار روپے کی ہی خریدیں یا 10,000 روپےمیں خریدنا لازم ہے یا یہ معاملہ فاسد ہے ؟
واضح رہے کہ کوئی چیز بنوانے کے لیے دی جائے تو اسی وقت حتمی قیمت طے کرنا ضروری ہے، اگر اسی وقت حتمی رقم طے نہ ہو تو ایسا سودا کرنا ناجائز ہے۔ نیز جب ایک قیمت طے ہوجائے تو بعد میں اس طے شدہ رقم میں اضافہ کرنا، مال بنوانے والے کی اجازت اور رضامندی کے بغیر جائز نہیں ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 258):
"إذا اشترى عبدين بألف درهم ثم زاد المشتري في الثمن مائة درهم جازت الزيادة". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144102200124
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن