بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دس بارہ دن کے حمل کو ساقط کرنے کا حکم


سوال

زید کی ایک بچی  دس ماہ کی ہے، اس کی بیوی پھر سے حاملہ ہوگئی جس کی وجہ سے وہ کہتی ہے کہ میں دو بچوں کی ایک ساتھ پرورش نہیں کر سکتی تو کیا وہ اسقاطِ حمل کرا سکتی ہے؟

 نوٹ: حمل ابھی دس بارہ دن کا ہی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ایامِ حمل کی مشقت، ولادت کی تکلیف، رضاعت  اس سلسلہ میں جو بھی تکلیف اور پریشانی برداشت کی جائے گی، یہ سب موجبِ اجرو ثواب ہے، اورحمل و ولادت یہ مرحلہ ہی تکلیف کا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:

{حملته أمّه كرهاً و وضعته كرهاً}

ترجمہ:  ا س کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا، اوربڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا۔ (قرآن مجید پارہ نمبر ۲۶ رکوع نمبر ۲ سورۂ احقاف)

البتہ اگر حمل کی صورت میں واقعۃً  ماں کی جان کو  خطرہ  ہو  یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو  ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کی نشو و نما میں نقصان ہو  رہا ہو اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق بھی کرے یا پھر پہلے بچے کی تربیت میں دقت ہونے اور صحیح تربیت نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ان جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہے، گنجائش کا یہ مطلب ہے کہ کرلیا تو گناہ نہیں ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(3 / 176، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144203201583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں