بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بے پردہ ٹیلی ویژن پر آنا


سوال

کیا مسلمان خاتون کا بغیر کسی حجاب کے یعنی ننگے بال،  کھلے چہرے اور خوب  میک اَپ کرکے  ٹیلی ویژن پر مردوں کے سامنے  آنا اور بولنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خواتین کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی سات آیات اور حدیث کی ستر روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت گھر کی چار دیواری میں رہے، بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلے، اگر باہر نکلنا ضروری ہو تو برقع یا لمبی چادر میں مستور ہوکر نکلے، راستہ دیکھنے کے لیے  صرف آنکھیں کھلی ہوں، راہ چلتے ہوئے راستہ کے ایک طرف ہو کر چلے، زیب وزینت اختیار کرکے نہ  نکلے، خوشبو نہ لگائے، بجتاہوا زیور نہ پہنے ہوئے ہو، اگر اجنبی مردوں سے بات چیت کرنے کی ضرورت پڑے تو ان سے گفتگو کرتے ہوئے  اپنی  طبعی نرم و  ملائم آواز  میں گفتگو  نہ  کرے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"{وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى}[الأحزاب: ۳۳]".

ترجمہ: اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھلانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں ۔

"{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]".

ترجمہ: اے نبی کہہ دے اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مسلمانوں کی عورتوں کو نیچے لٹکا لیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں اس میں بہت قریب ہے کہ پہچانی پڑیں تو کوئی ان کو نہ ستائے اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان ۔

تفسیر روح المعانی  (128/12) میں ہے:

"ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن".

جہاں تک ٹی وی پر آنے کی بات ہے تو  اس کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے، یعنی  جان دار کی تصویر بنانا اور بنوانا جائز نہیں ہے، لہٰذا  کسی بھی عورت کو   اس کی اجازت نہیں  ہوگی، نیز کسی مسلمان عورت کے ٹیلی ویژن پر آنے سے  پردے کی حدود و قیود کی پامالی ظاہر ہے، اور بے پردہ ہوکر ٹیلی ویژن پر آتے ہوئے اس کے بال بھی ننگے ہوں اور زیب و زینت بھی اختیار کررکھی ہو تو پھر گناہ کی شدت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بے شمار احادیثِ  مبارکہ میں ایسی عورتوں کے لیے  شدید وعیدیں آئی ہیں، چند ایک ملاحظہ ہوں:

سنن الترمذي (3 / 476):

"عن عبد الله : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان".

(ترجمہ)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے(یعنی اس کو مسلمانوں میں برائی پھیلانے کا ذریعہ بناتا ہے) ۔

صحيح مسلم (6 / 168):

"عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « ... ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رءوسهن كأسنمة البخت المائلة لايدخلن الجنة و لايجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا»".

(ترجمہ) جو عورتیں (کپڑے) پہن کر بھی بے پردہ ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، بختی اونٹ کےجھکے ہوئےکوہان کی طرح اپنے سرکےبالوں کو سجانے والیاں ہوں گی، وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی، جب کہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت(پانچ سو سال کی مسافت) سے سونگھی جاسکتی ہے۔

سنن النسائي  (8 / 153):

"عن الأشعري قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أيما امرأة استعطرت فمرت على قوم ليجدوا من ريحها فهي زانية".

(ترجمہ) حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو عورت خوشبو لگائے اور پھر وہ لوگوں کے پاس جائے؛  اس  لیے کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے(یعنی اس کی اس حرکت کا گناہ گناہ کبیرہ اور زنا کی طرح ہے)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں