میں سرکاری ملازم ہوں۔ ہماری تنخواہ میں سے ہر مہینے ایک مخصوص فنڈ کٹتا ہے جو ریٹائرمنٹ پر جمع ہو کر ملتا ہے اور اس پر حکومت پرافٹ دیتی ہے، اب گورنمنٹ کہاں لگاتی ہے اس کی مجموعی تفصیلات مجھے نہیں معلوم۔ اگر آپ اس پر روشنی ڈال سکیں تو نوازش ہوگی!
سرکاری اور نجی اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے پراویڈنٹ فنڈ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے ملازمین کی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرکے ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے، اس کی چند صورتیں ہیں:
1۔ بعض ادارے اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتے ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتے، ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے۔
2۔ بعض اداروں کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ ملازمین کو اختیار ہوتاہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کی جاتی رہتی ہے۔
3۔ بعض ادارے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے؛ اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔
1۔ پہلی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ۔ اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا۔ البتہ اگر کوئی احتیاطاً یہ رقم استعمال نہ کرے تو یہ تقوے کی بات ہے۔
2۔ دوسری قسم (اختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے اتنی ہی جمع شدہ رقم وہ لے سکتے ہیں، زائد رقم لینا شرعاًجائز نہیں ہوتا ؛ کیوں کہ اس صورت میں ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کرواتاہے، گویا وہ اپنی جمع شدہ رقم کو سودی انویسٹمنٹ میں صرف کرنے پر راضی ہوتاہے، لہٰذا یہ اضافہ لینا جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ سودی معاملے پر رضامندی بھی ناجائز ہے۔
3۔ تیسری صورت( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز ہوتا ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں ہوتا .فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201548
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن