بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیمنگ ٹورنامنٹ کے انعقاد، شرکت اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی کا حکم


سوال

گیمنگ ٹورنامنٹ اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب

جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ ذہن نشین رہے کہ   کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا :

  1.   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔
  2. اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔
  3.  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔
  4. کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

            اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے میچ وغیرہ کھیلا جائے تو  اس کی اجازت ہے۔

باقی اگر کسی بھی کھیل (گیم) کے ٹورنامنٹ میں شروع ہی سے یہ شرط ہو کہ  ہر ٹیم رقم جمع کرائی گی اور پھر اس رقم سے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم کو ملے گی، تو یہ  ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ صورت ’’قمار‘‘ یعنی جوا میں داخل ہے۔ اسی طرح یہ صورت کہ ہر ٹیم ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنے والی کمیٹی کے پاس ایک معین رقم جمع کرواتی ہے، کمیٹی اس مجموعی رقم سے کھیل کے سامان اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے علاوہ اپنا منافع رکھنے کے بعد کچھ رقم جیتنے والی ٹیم کے لیے بھی مختص کرتی ہے جو کہ عام طور سے جمع کروائی گئی رقم سے زیادہ ہی ہوتی ہے، اور کمیٹی ٹورنامنٹ کے انعقاد کے وقت باقاعدہ یہ اعلان کرتی ہے کہ ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیم کو اتنی رقم دی جائے گی، چنانچہ فائنل مقابلہ جیتنے والی ٹیم کو اپنی جمع کرائی گئی رقم سے زیادہ رقم مل جاتی ہے جو کہ باقی ٹیموں کی جمع کرائی گئی رقم میں سے ہی نکال کر دی جاتی ہے اور باقی ٹیموں کی رقم ڈوب جاتی ہے، اس طرح کا معاملہ بھی سود اور قمار میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا اس طرح کسی بھی کھیل کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنا یا  اس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہے، اور اس طرح کے ٹورنامنٹ سے حاصل ہونے والی کمائی بھی ناجائز اور حرام ہے۔

کسی بھی جائز کھیل کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنے والی منتظمہ کمیٹی صرف انتظامات کی مد میں انٹری (داخلہ) فیس وصول کرے اور کسی بھی قسم کی انعامی رقم دینے کا کوئی معاہدہ نہ کرے۔ پھر بعد میں اعلان و معاہدہ کیے بغیر اگر کمیٹی خود سے تبرعاً جیتنے والی ٹیم کو اپنی طرف سے غیر مشروط انعامی رقم دے دے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اسی طرح اگر منتظمہ کمیٹی صرف اخراجات اور انتظامات کی مد میں فیس وصول کرنے کے بعد خود سے کوئی انعام نہ دے بلکہ انعامی رقم کسی ایسے تیسرے شخص (یعنی اسپانسر) کی طرف سے دی جائے جس نے ٹیموں سے کوئی فیس وصول نہ کی ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے، لہٰذا قمار (جوئے) اور دیگر ناجائز امور کے ارتکاب سے بچنے کے لیے ان صورتوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

لیکن بہرحال بہتر یہی ہے کہ ان مقابلوں اور انتظامات میں اپنا وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کے بجائے کسی مفید کام میں اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ صرف کیا جائے؛ کیوں کہ بروزِ قیامت وقت اور سرمائے دونوں کے متعلق پوچھ ہوگی کہ ان کو کہاں صرف کیا تھا؟

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 402):
"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ...  وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي.

(قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں