بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں تراویح میں محرم اور نامحرم کے ساتھ جماعت کرنا


سوال

  گھر میں گھر ہی کے مرد و مستورات مرد امام (جوکے گھر ہی  کا فرد ہو)کی اقتدا  میں باجماعت تراویح ادا  کرسکتے  ہیں یا نہیں ؟

اور اگر محلہ سے مستورات آنے کی صورت میں ایک کمرے میں مرد اور دوسرے میں مستورات ہوں  تو پھر باجماعتِ تراویح کا حکم کیا ہوگا؟ 

واضح رہے کہ  دونوں کمرے آگے پیچھے نہیں ہیں کہ  جس میں مردوں کی صفیں آگے اور مستورات کی پیچھے ہوں، بلکہ دونوں کمرے دائیں بائیں ہیں  کہ اس صورت میں مردوں اور مستورات کی صفیں برابر ہی ہوں گی، البتہ الگ الگ کمرے میں ہوں گی، صرف بیچ میں دیوار ہوگی ۔

جواب

اگر مرد گھر میں تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اس کی اقتدا میں ہوں، باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو یہ نماز شرعاً درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔

اوراگر امام تنہا ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو  ، امام عورتوں کی امامت کی نیت بھی  کرے  تو اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، امام کی نامحرم خواتین پردہ کا اہتمام کرکے شریک ہوں ۔

اور اگر  امام تنہا ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں ، اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون یا بیوی نہ ہو،  تو ایسی صورت  امام کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا؛ لہٰذا ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے۔

واضح رہے کہ موجودہ پرفتن دور میں غیر محرم خواتین کو باہر سے اہتمام سے آکر تراویح میں شرکت کی اجازت نہیں ہے، عورتیں اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کریں یہی ان کے لیے فضیلت کا باعث ہے۔

باقی درمیان میں اگر دیوار حائل ہو  اور دونوں  الگ الگ کمرے برابر میں ہوں تو مذکورہ صورتوں میں سے جن صورتوں میں نماز جائز ہے ان صورتوں میں نماز ادا ہوجائے گی۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

" تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره، بحر"۔ (1/ 566 ، باب الامامۃ، ط: سعید)
الفتاوى الهندية (1/ 88):
"لو كان بين صف النساء وصف الرجال سترة قدر مؤخر الرجل كان ذلك سترة للرجال ولا تفسد صلاة واحد منهم، وكذلك لو كان بينهم حائط قدر الذراع، وإن كان أقل من ذلك لا يكون سترة".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں