تقریباً پورے پاکستان میں سرمہ والا کے نام سے ایک کمپنی ہے جو قسطوں پر سامانِ ضرورت دیتی ہے، لیکن ریٹ نقد قیمت سے زائد ہوتا ہے، مثلاً ایک فریج اگر نقد ریٹ میں ہے تو قسطوں پر 60 ہزار کی ملے گی اور اس کے ساتھ وہ ہر ماہ قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کا نام نکلے اس کی باقی قسط ختم، چاھے ایک قسط ہی ادا کی ہو، اس صورت حال میں دو باتیں قابلِ غور ہیں:
1۔ نقد کم ریٹ اور قسط پر زیادہ ریٹ پر دینا یا لینا کیسا ہے؟
2۔ قرعہ اندازی والی صورت کیسی ہے؟ اگر نام نکل آئے تو باقی قسطیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں!
واضح رہے کہ خرید وفرخت کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ سودا کرتے وقت ریٹ طے کرلیے جائیں، نیز ادھار فروخت کرنے کی صورت میں اگر بائع( فروخت کنندہ) نقد قیمت سے زائد قیمت مقرر کرتا ہے اور سودا کرتے وقت طے کردیتا ہے تو اس کا یہ عمل شرعاً درست ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں:
١) ادہار فروخت کرنے کی صورت میں زائد رقم طے کرنا شرعاً درست ہوگا۔
٢) قرعہ اندازی میں شامل کرنے کی وجہ سے چوں کہ فروخت شدہ چیز کی قیمت غیر متعین ہوجاتی ہے( کہ آیا پوری قیمت ادا کرنی ہوگی یا آدھی یا اس سے کم یا زیادہ) جب کہ سودہ کرتے وقت قیمت متعین کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے؛ لہذا اس انداز سے خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200723
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن