بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا


سوال

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم بتائیں!

جواب

کرسی پر نماز  پڑھنے  کے مسئلہ کی تفصیل  یہ ہے کہ گھٹنوں یاقدموں میں معمولی تکلیف  کی وجہ سے  فرض نماز میں قیام ترک کردینا اور بیٹھ کر  نماز  پڑھنا  جائز نہیں، ہاں اگر  تکلیف  اس حد تک  پہنچ چکی  ہے کہ  آدمی کھڑے ہوتے ہی  گرجاتا ہے یا مرض  کے بڑھ جانے  یا شفایا بی میں  دیر لگ جانے  کا ظن غالب ہو یا  ناقابلِ بر داشت تکلیف پہنچتی ہو تو بیٹھ کر  نماز پڑھنا  جائز ہے،  لیکن اگر تھوڑی  دیر کےلیے  ہی کھڑے ہونے کی طاقت  ہو (اور زمین پر سجدہ پر بھی قدرت ہو) تب بھی اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے،  اگر چہ  دیوار یالاٹھی  وغیرہ کے ساتھ ٹیک  لگانی پڑے، اس صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا  جائز نہیں۔

اگر قیام پر قدرت ہو مگر رکوع وسجدہ  پر قدرت نہ ہو تو  بیٹھ کرنماز پڑھنا اور اشارے کے ساتھ سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس صورت میں زمین پر بیٹھ کر  نماز پڑھنا بہتر ہے، اسی طرح اگر رکوع و سجدہ  کرنے کی طاقت ہو تو  بیٹھ کر  اشارے  کے ساتھ  رکوع وسجدہ  کرنا جائز  نہیں، بلکہ رکوع وسجدہ  کرنافرض ہے اس کے بغیر  نماز نہ ہوگی ۔ ہاں ! اگر رکوع وسجدہ کرنے کی بالکل  طاقت نہ ہو تو  اشارے  کے ذریعہ  سے رکوع سجدہ  کیا جاسکتا ہے لیکن سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ  پست ہونا چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب قیام پر قدرت  نہ ہو تو زمین پر بیٹھ کر  بھی  نماز جائز ہے  اور کرسی  پر بیٹھ کر بھی۔لیکن  دونوں صورتوں میں اگر سجدے  پر قدرت ہو تو سجدہ کرنا ضروری ہو گا، خواہ زمین  پر کرے یا کرسی کے سامنے  کوئی تختہ یا میز رکھ کر (بشرطیکہ جس تختے وغیرہ پر سجدہ کرے وہ نشست سے ایک بالشت یا اس سے زیادہ اونچا نہ ہو)،  جب اس طرح سجدے  پر قدرت نہ ہو تو تب  اشارہ جائز ہوگا  ورنہ نہیں ۔

وفي الدر المختار  للحصکفي:

"(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر به يفتى(قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألماً شديدًا) أو كان لو صلى قائمًا سلس بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر (صلى قاعدًا) ولو مستندًا إلى وسادة أو إنسان فإنه يلزمه ذلك على المختار (كيف شاء) على المذهب؛ لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى. وقال زفر: كالمتشهد، قيل: وبه يفتى (بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام) ولو متكئًا على عصًا أو حائط (قام) لزومًا بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب؛ لأن البعض معتبر بالكل (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطًا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدًا) وهو أفضل من الإيماء قائمًا لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوماً ... الخ"

وفي رد المحتار لابن عابدین :

"(قوله: لمرض حقيقي إلخ) قال في البحر: أراد بالتعذر التعذر الحقيقي، بحيث لو قام سقط، بدليل أنه عطف عليه التعذر الحكمي وهو خوف زيادة المرض... (قوله: أو وجد لقيامه) أي لأجله ألماً شديدًا ... (قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعدًا يومئ؛ ولو صلى قائمًا بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود. اهـ".  (کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ج:۲، ص:۹۵ تا ۹۸، ط:سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200868

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں