بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کتے اور خنزیر پالنے کا حکم


سوال

کتا اور خنزیر پالنا اسلام میں کیوں حرام ہے؟ کیا کوئی پرانا واقعہ گزرا ہے جس کے بعد اللہ تعالٰی نے ان دونوں کو حرام فرما دیا؟  کتے کا کاروبار کس بنا پر جائز ہے؟ ایسا کوئی واقعہ ہوا کہ گوشت کا ٹکڑا کہیں پر ڈالا تھا تو وہ کتا بن گیا تھا؟

جواب

خنزیر ایک ناپاک اور نجس العین  جانور ہے اوراس  کے تمام اجزاءحرام ہیں، اسے پالنا اور اس کی خرید وفروخت کسی صورت جائز نہیں ہے۔ جب کہ کتے کا پالنابھی بلا ضرورت جائز نہیں ۔ کسی ضرورت  (جیسے حفاظت، شکار)کے لیے جائز ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لاتدخل الملائکة بیتًا فیه صورة ولا کلب". (البخاري، رقم: ۴۰۰۲، ۵/۱۸، بیروت) یعنی رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا.

ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے:

"من اتخذ کلبًا إلاّ کلب ماشیة أو صید أو زرع انتقص من أجره کل یوم قیراط". (الترمذي، رقم: ۱۴۹، باب ما جاء من أمسک کلباً الخ) یعنی جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔ 
ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ شکار اور حفاظتی اغراض کے علاوہ محض شوقیہ کتا پالنا شرعاً ممنوع ہے، جس گھر میں اس طرح کا کتا ہوگا اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قابلِ اعتماد ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، ایک مؤمن کی شان یہ ہے کہ اس پر عمل کرے، اس حکم کی علت اور لِم کیا ہے اس کے درپے نہ ہو، اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے، احکام کی حقیقی علتیں اللہ ہی کو معلوم ہیں، مؤمن کی شان احکام پر عمل کرنا ہے۔

باقی علماء نے قرآن وحدیث اور شریعت کے مزاج کی روشنی میں کتے کے حرام ہونے اور اس کے ساتھ اختلاط کے عدمِ جواز کی شرعی مصلحتیں بھی بیان کی ہیں؛ لیکن ان مصلحتوں کو ”ظن“ کے درجے میں رکھنا چاہیے، واقعی مصلحت کیا ہے، اسے اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔

”احکامِ اسلام عقل کی نظر میں“ میں ہے:

’’کتا باعتبار اوصافِ مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے، چناں چہ اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان فرمایا ہے ․․․․ وہ اوصافِ ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین وذلیل ترین وخسیس ترین حیوانات سے ہے اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدتِ حرص میں ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدتِ حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑکر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے، اور جب اس کی طرف پتھر پھینکو تو وہ فرطِ حرص وغصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے، الغرض یہ جانور بڑا حریص وذلیل ودنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا اور نجاست بہ نست حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جو صدہا کتوں کے لیے کافی ہو تو شدتِ حرص وبخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا ․․․ پس جب کتے کے ایسے اوصافِ مذمومہ ہیں تو جو شخص اس کو کھاتا ہے وہ بھی ان ہی اوصاف سے متصل ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا، اور چوں کہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے؛ اس لیے بلاخاص ضرورت کی صورتوں میں اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ ان کی صفاتِ خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفاتِ خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بُعد اختیار کرتے ہیں، چناں چہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے، اور سیاست کے ملائکہ (انتظامِ عالم اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے) اس سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں“ مولفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ ص: ۲۸۵، ۲۸۶، ط: مکتبہ دارالعلوم)
2-کتے سے متعلق شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ جس کتے کو پالنا جائز ہو اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور جس کو پالنا جائز نہیں اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں، اور کتے کو پالنے کی اجازت شکار کے لیے ہے یا گھر اور کھیتی کی حفاظت کے لیے ہے؛ لہذا جو کتا مذکورہ امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے ورنہ نہیں۔

کتوں کی حرمت کی وجہ  کوئی پرانا واقعہ نہیں، بلکہ مذکورہ دلائل ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 68):
’’لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلماً أو غير معلم‘‘.

الفتاوى الهندية (3/ 114):
’’بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلماً كان أو لم يكن، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘.
الفتاوى الهندية (3/ 114):
’’وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلاً للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي‘‘.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں