بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب کے بعد قطرہ آنا، معذور کا حکم


سوال

 وضو کرنے کے بعد ایک تو قطرے آتے ہیں جب کہ بعد میں مذی کے قطرے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں، تین دفعہ بھی وضو کرکے بعد میں پتا چل جاتا ہے کہ مذی نکل آئی ہے غیر محسوس انداز میں، ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

اگر آپ کو  صرف استنجا سے فراغت کے بعد کچھ قطرے آتے ہیں اور مستقل قطرے آنے کی بیماری نہیں ہے اور اتنا وقت مل سکتا ہے کہ آپ وضو کرکے  چار رکعات فرض ادا کرسکتے ہیں  تو ایسی صورت میں آپ شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہیں، استنجا  کرتے وقت کچھ دیر انتظار کرلیں؛ تاکہ قطرےسب نکل جائیں۔ اگر پیشاب کے  بعد پیشاب یا مذی یا ودی کے قطرے آجائیں اور کپڑوں کو لگ جائیں تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے۔اگر قطرے درہم کے برابر لگیں تو ان میں نماز مکروہ ہوگی۔اگر اس سے زائد لگیں تو نماز ہی نہیں ہوگی۔

اس کی  بہتر صورت یہ  ہوسکتی ہے کہ  آپ نماز کے بعد استنجا  کرنے کی عادت بنائیں ، اور انڈروئیر کا استعمال کریں ، اور استنجا کرنے کے بعد  انڈروئیر میں ٹشو وغیرہ رکھ لیں، تاکہ کچھ وقت بعد اگر قطرہ آئیں وہ ٹشو پر لگیں، بعد ازاں جب نماز کا وقت ہوتو وہ ٹشو نکال کر پھینک دیں اور وضو کرکے نماز ادا کرلیں، اس سے آسانی ہوجائے گی۔

اور اگر آپ کو یہ  بیماری  اتنی زیادہ ہوکہ  اتنا وقفہ بھی نہ ملتا ہو جس میں  وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں  چار رکعت نماز ادا کرسکیں تو  ایسی صورت میں آپ  معذور کے حکم میں ہوں گے، اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلیں اور نماز پڑھیں، اگر وضو کے بعد قطرے (یعنی جس بیماری کی وجہ سے معذور کے حکم میں ہوئے ہیں ) کے  علاوہ کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کریں، ورنہ ایک نماز کے وقت میں دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اللباب  میں ہے:

"(ومن أصابه من النجاسة المغلظة كالدم والبول) من غير مأكول اللحم ولو من صغير لم يطعم (والغائط والخمر) وخرء الطير لا يزرق في الهواء كذجاج وبط وإوز (مقدار الدرهم فما دونه جازت الصلاة معه؛ لأن القليل لا يمكن التحرز عنه؛ فيجعل عفواً، وقدرناه بقدر الدرهم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرهم (لم تجز) الصلاة، ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة، وهو قدر عرض الكف في الصحيح، ويروى من حيث الوزن، وهو الدرهم الكبير المثقال، وقيل في التوفيق بينهما: إن الأولى في الرقيق، والثانية في الكثيف، وفي الينابيع: وهذا القول أصح". (اللباب في شرح الكتاب ،ص؛68، فصل في النجاسة، ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة، (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في  ﴿لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ﴾ [الإسراء: 78] (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل)". (1/ 305،  کتاب الطہارۃ، مطلب فی احکام المعذور، ط: سعید)

وفیه أیضاً:
"(وَعَفَا) الشَّارِعُ (عَنْ قَدْرِ دِرْهَمٍ) وَإِنْ كُرِهَ تَحْرِيمًا، فَيَجِبُ غَسْلُهُ، وَمَا دُونَهُ تَنْزِيهًا فَيُسَنُّ، وَفَوْقَهُ مُبْطِلٌ".
(1/ 316) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں