بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وبا سے بھاگنے سے ممانعت سے متعلق حدیث


سوال

کیا کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے کہ جہاں کوئی وبائی بیماری پھیلے تو وہاں نہ جانا ہے اور نہ وہاں سے نکل سکتے ہیں اور صبر کرے؟

جواب

مختلف کتبِ حدیث میں ایسی روایات منقول  ہیں جن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ جس جگہ طاعون (وبائی مرض) موجود ہو وہاں مت جاؤ ، اور جہاں تم موجود ہو وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگو مت ، اور یہ روایات صحیح ہیں، ملاحظہ فرمائیں، بخاری شریف میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ فَقَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا يُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ". (صحیح البخاری ، باب من انتظر حتی تدفن:۴/۱۷۵، ط: دارطوق النجاۃ)

اسی طرح کی روایت صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی وغیرہ میں موجود ہے ۔اور روایت بھی صحیح درجہ کی ہے.

اس کی وضاحت کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں  کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو ، وہاں مت جاؤ ؛ کیوں کہ وہاں جانے کی صورت میں وبائی مرض کے بارے میں اللہ کے سامنے جرأت کا اظہار کرنا ہے اور جہاں موجود ہو وہاں سے ڈر اور خوف کی وجہ سے نکلنا چاہے، تو یہ تقدیر سے بھاگنا ہے جس کاکوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے یہ دونوں کام درست نہیں۔ البتہ یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کوئی اس وبا سے بھاگنا چاہتا ہو؛ لہٰذا اگر کسی کام سے جارہا ہو تو  اس وبائی جگہ سے نکلنے میں حرج نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

"وفي رواية أخرى: فلاتدخلوا عليه أي يحرم عليكم ذلك؛ لأن الإقدام عليه جراءة على خطر وإيقاع للنفس في التهلكة والشرع ناه عن ذلك، قال تعالى: {ولاتلقوا بأيديكم إلى التهلكة} ( وإذا وقع ) أي الطاعون ( وأنتم ) أي والحال أنتم ( بها ) بذلك الأرض ( فرارًا ) أي بقصد الفرار ( منه )؛ فإن ذلك حرام؛ لأنه فرار من القدر وهو لاينفع، والثبات تسليم لما لم يسبق منه اختيار فيه، فإن لم يقصد فرارًا بل خرج لنحو حاجة لم يحرم، قاله المناوي في التيسير". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)

اور علماء نے طاعون سے وبا مراد لی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
"الطاعون بوزن فاعول من الطعن عدلوا به عن أصله ووضعوه دالاً على الموت العام كالوباء، ويقال: طعن فهو مطعون وطعين إذا أصابه الطاعون وإذا أصابه الطعن بالرمح فهو مطعون، هذا كلام الجوهري. وقال الخليل: الطاعون الوباء". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)۔

اس لیے اگر کہیں وبا پھیل جائے تو  اس سے بھاگنے کے بجائے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں