بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے حقوق، اولاد کی تربیت کی ذمہ داری، جماعت سے نماز پڑھنے کے فضائل اور تاکیدات


سوال

میرا بیٹا  ما شاء اللہ سات سال کی عمر سے ہی نماز کا پابند ہے، آج وہ 24 سال کا ہے، نماز تو پڑھتا ہے مگر جماعت سے بالکل نہیں پڑھتا ،سوائے جمعہ کے، وہ  بھی اس مسجد میں جہاں بالکل آخر میں ہوتی ہے، تین بجے کے بعد والی جماعت، ماں ہونے کے ناطہ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، اس کو میرا بولنا بہت برا لگتا ہے، اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، آپ مجھے یہ بتائیں   : کیا ماں کا اپنے بچوں کو نماز کی پابندی  اور جماعت سے پڑھنے کا کہناغلط ہے؟ اولاد بڑی ہوجائے تو ان کو کسی غلط بات پر روکنا، ٹوکنا ناجائز ہے؟

جواب

آپ کا جذبہ قابلِ قدر وتحسین ہے،   بچوں کی اچھی تربیت  اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہی، شریعت کے اوامر اور نواہی کی پابندی  کی تلقین ، ایک ماں کے بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے،اولاد بڑی ہو یا چھوٹی انہیں والدین کے تمام جائز امور میں فرمانبرداری اور اطاعت کرنا اور ان کی تابع داری کرنا فرض ہے، قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  اور والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بد کلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔

والدین کے حقوق قرآن وحدیث کی روشنی میں:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوْآ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾  [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا ، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انھوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»".(مشکاۃ المصابیح ،  2/421 ،باب البر والصلۃ، قدیمی)

         ترجمہ:رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔(مظاہرِ حق ، 4/487، ط قدیمی)

اور پھر بالخصوص جب والدین اپنے بچوں کو ان چیزوں کا حکم دیں جو خود اللہ اور اس کے رسول کا بھی حکم ہو تو کسی مسلمان کے لیے اس سے روگردانی کرنے کی قطعا گنجائش نہیں بچتی، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی شریعت مطہرہ میں بہت تاکید آئی ہے، اور جماعت سے نماز چھوڑنے پر بڑی سخت وعیدات آئی ہیں،  جماعت،  نماز کی تکمیل میں ایک اعلیٰ درجہ کی شرط ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جماعت نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ حالتِ مرض میں جب  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود چلنے کی طاقت نہ تھی، دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی۔ جماعت چھوڑ نے والے پر آپ کو سخت غصہ آتا تھا اور ترکِ جماعت پر سخت سے سخت سزادینے کو آپ کا جی چاہتا تھا۔ بلاشبہ شریعتِ محمدیہ میں جماعت کا بہت بڑا اہتمام کیا گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے؛ کیوں کہ نماز جیسی عبادت کی شان بھی اسی کو چاہتی ہے کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو وہ بھی تاکید کے اعلیٰ درجہ پر پہنچادی جائے،  جماعت کی فضیلت اور تاکید سے متعلق قرآن وحدیث   میں سے چند ارشادات درج ذیل ہیں :

نماز باجماعت کی فضیلت واہمیت:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَقِيمُوا الصَّلوٰةَ وَاٰتُوا الزَّكوٰةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرّٰكِعِينَ ﴾ [البقرة: 43]

ترجمہ: نماز قائم کرواور  زکاۃ ادا کرو، اورنماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر ( یعنی جماعت کے ساتھ).

احادیث مبارکہ:

1۔۔  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جماعت سے نمازپڑھنے کا ثواب تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ہے۔‘‘ ( بخاری ، مسلم )

2۔۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تنہا نماز پڑھنے سے ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنا بہت بہتر ہے، اور دو آدمیوں کے ساتھ اور بھی بہتر اور جتنی زیادہ جماعت ہو اتنی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔‘‘ ( ابو داو‘د ، نسائی  ) 

3۔۔      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جتنا وقت نماز کے انتظار میں گزرتا ہے وہ سب نماز میں شمار ہوتا ہے۔‘‘

4۔۔          نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز عشاء کے وقت اپنے ان اصحاب سے جو جماعت میں شریک تھے فرمایا کہ لوگ نماز پڑھ کر سوگئے اور تمہارا وہ وقت جو انتظار میں گزرا سب نماز میں شمار ہوا۔

5۔۔            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ان لوگوں کو جو اندھیری راتوں میں جماعت کے لیے مسجد جاتے ہیں اس بات کی خوش خبری دو کہ قیامت میں ان کے لیے پوری روشنی ہوگی۔‘‘ ( ترمذی )-

6۔۔  حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز جماعت سے پڑھے اس کو آدھی رات کی عبادت کا ثواب ملے گا اور جو عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملے گا۔ ‘‘

7۔۔    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک میرے دل میں یہ ارادہ ہوا کہ کسی کو حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کرے، پھر اذان کا حکم دوں اور کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کے گھروں پر جاؤں جو جماعت میں نہیں آتے اور ان کے گھروں کو جلادوں۔ ‘‘

8۔۔     ایک روایت میں ہے:’’ اگر مجھے چھوٹے بچوں اور عورتوں کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوجاتا اور خادموں کو حکم دیتا کہ انہیں ان (جماعت میں شریک نہ ہونے والوں)کے گھروں کو مال واسباب سمیت جلادیں۔‘‘( مسلم )

9۔۔      ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’کسی آبادی یا جنگل میں تین مسلمان ہوں اوروہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو بے شک ان پر شیطان غالب ہوجائے گا، پس اے ابودرداء! جماعت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لو، اور دیکھو بھیڑیااسی بکری کو کھاتاہے جو اپنے گلّے سے الگ ہوگئی ہو۔‘‘ (یعنی اسی طرح شیطان بھی اس شخص کو بہکاتا ہے جو اپنی جماعت سے الگ ہو جائے)

آثارِ صحابہ :

چند حدیثیں نمونے کے طور پر ذکر ہوئیں، اب  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ اصحاب کے اقوال ملاحظہ ہوں  کہ انہیں جماعت کا کس قدر اہتمام تھا اور جماعت چھوڑنے کو وہ کیسا سمجھتے تھے اور کیوں نہ سمجھتے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا ان سے زیادہ کس کو خیال ہوسکتا ہے۔

1۔۔ اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھے کہ نماز کی پابندی اور اس کی فضیلت اور تاکید کا ذکر چل نکلا، اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تائیداًنبی ﷺ کے مرضِ وفات کا قصہ بیان کیا کہ ایک دن نماز کا وقت آیا اور اذان ہوئی تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو نماز پڑھائیں۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر( رضی اللہ عنہ) ایک نہایت رقیق القلب آدمی ہیں، آپ کی جگہ پر کھڑے نہ ہوسکیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ آپ نے پھر وہی فرمایا، پھر وہی جواب دیا گیا، تب آپ نے فرمایا کہ تم ایسی باتیں کرتی ہو جیسے یوسف علیہ السلام سے مصر کی عورتیں کرتی تھیں۔ ابوبکر( رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لیے نکلے، اتنے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض میں کچھ افاقہ معلوم ہوا توآپ دو آدمیوں کے سہارے نکلے۔ اب تک وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک زمین پر گھسٹتے ہوئے جاتے تھے یعنی اتنی قوت بھی نہ تھی کہ زمین سے پیر  اٹھاسکیں۔ وہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز شروع کرچکے تھے،انہوں نے چاہاکہ پیچھے ہٹ جائیں مگر آپ نے منع فرمایا اور انہیں سے نماز پڑھوائی۔

2۔۔   ایک دن حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سلیمان بن ابی خیثمہ کو صبح کی نماز میں نہیں پایا تو ان کے گھر گئے اور ان کی والدہ سے پوچھا کہ آج میں نے سلیمان کو فجر کی نماز میں نہیں دیکھا؟ انہوں کہا کہ وہ رات بھر نماز پڑھتے رہے، اس وجہ سے اس وقت ان کو نیند آگئی، تب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ مجھے فجر کی نماز جماعت سے پڑھنا زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ پوری رات عبادت کروں۔‘‘ ( مؤطا امام مالک )

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ صبح کی نماز باجماعت پڑھنے میں تہجد سے بھی زیادہ ثواب ہے؛ اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ اگر رات کو جاگ کر عبادت کرنے سے نمازِ فجر رہ جانے کا خطرہ ہو تو نہ جاگنا افضل ہے۔ ( أشعۃ اللمعات )

3۔۔       حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک ہم نے اپنے آپ کو اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھاکہ منافق (جس کا نفاق کھلا ہوا ہو) یا بیمار کے علاوہ کوئی جماعت نہیں چھوڑتا تھا، بیمار بھی دو آدمیوں کا سہارا لے کر جماعت کے لیے حاضر ہوتے تھے، بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے راستے بتائے ہیں اور ان میں سے ایک نماز ہے ان مسجدوں میں جہاں اذان ہوتی ہو، یعنی جماعت ہوتی ہو۔ دوسری روایت میں فرمایا: جسے خواہش ہوکہ کل (قیامت کے دن)اللہ تعالیٰ کے سامنے مسلمان ہونے کی حالت میں حاضر ہو،اسے چاہیے کہ پانچوں نمازوں کی پابندی ان مقامات میں کرے جہاں اذان ہوتی ہو (یعنی جماعت سے نماز پڑھی جاتی ہو) بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے جاری فرمائے ہیں اور یہ نما ز بھی ان ہی طریقوں میں سے ہے۔ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرو گے جیسا کہ منافق پڑھ لیتا ہے تو بے شک تم سے تمہارے نبی کی سنت چھوٹ جائے گی اور اگر تم اپنے پیغمبر کی سنت چھوڑ دو گے تو بلاشبہ گمراہ ہوجائو گے، اور جوشخص اچھی طرح وضو کرکے نماز کے لیے مسجد میں جاتاہے تو اسے ہر قدم پر ایک نیکی ملتی ہے، ایک مرتبہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ہمارے وقت میں جماعت وہی چھوڑتا تھا جو منافق ہو۔ہم لوگوں کی تو حالت یہ تھی کہ بیماری کی حالت میں دو آدمیوں کے سہارے جماعت کے لیے لائے جاتے تھے اور صف میں کھڑے کردیے جاتے تھے۔

4۔۔     ایک مرتبہ ایک شخص مسجد سے اذان کے بعد نماز پڑھے بغیر چلا گیا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ ( مسلم شریف )

غور کریں کہ  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جماعت چھوڑنے والے کو کیا کہا؟ کیا کسی مسلمان کو اب بھی بغیر عذر جماعت چھوڑنے کی جرأت ہوسکتی ہے؟ کیا کسی ایمان دار کو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی گوارا ہوسکتی ہے ؟

5۔۔            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو کوئی اذان سن کر جماعت میں نہ جائے اس کی نماز ہی نہیں ہوگی۔ یہ لکھ کر امام ترمذی لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ یہ حکم تاکیدی ہے، مقصود یہ ہے کہ بغیر عذر جماعت چھوڑنا جائز نہیں۔[ اور بلا عذر نماز پڑھنے سے اگر چہ نماز ہو جائے گی مگر کامل نہیں ہو گی۔ ]

6۔۔               مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جو شخص تمام دن روزے رکھتا ہو اور رات بھر نمازیں پڑھتا ہو مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہ ہوتا ہو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ فرمایا کہ دوزخ میں جائے گا۔ ( ترمذی )امام ترمذی اس روایت کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ جمعہ وجماعت کا مرتبہ کم سمجھ کر چھوڑے، تب یہ حکم لگایا جائے گا، لیکن اگر دوزخ میں جانے سے مراد تھوڑے عرصے کے لیے جانا لیا جائے تو اس تاویل کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔

فقہائے کرام کی آراء:

صحابہ کے کچھ اقوال بھی بیان ہوچکے ہیں جو درحقیقت نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ہیں۔اب ذرا علماءِ امت اور مجتہدین ملت کو دیکھیے کہ ان کا جماعت کے بارے میں کیا خیال ہے اور ان احادیث کا مطلب انہوں کیا سمجھا ہے۔

1۔۔        ظاہریہ اور امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقلدین کا مسلک یہ ہے کہ نماز کے صحیح ہونے کے لیے جماعت شرط ہے، اس کے بغیرنماز نہیں ہوتی۔

2۔۔             امام احمد رحمہ اللہ کا صحیح مسلک یہ ہے کہ جماعت فرض عین ہے،اگرچہ نماز کے صحیح ہونے کی شرط نہیں، امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقلدین کا بھی یہی مسلک ہے۔

3۔۔        امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقلدین کا یہ مسلک ہے کہ جماعت فرضِ کفایہ ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ جو حنفیہ میں سے ایک بڑے درجے کے فقیہ اور محدث ہیں ان کا بھی یہی مسلک ہے۔

4۔۔     اکثر محققین حنفیہ کے نزدیک جماعت واجب ہے۔ محقق ابن ہمام، حلبی اور صاحب البحر الرائق وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔

5۔۔  بعض حنفیہ کے نزدیک جماعت سنتِ مؤکدہ ہے، مگر واجب کے حکم میں ہے اور درحقیقت حنفیہ کے ان دونوں قولوں میں کوئی فرق نہیں۔

6۔۔  فقہاء لکھتے ہیں اگر کسی شہر میں لوگ جماعت چھوڑدیں اور کہنے کے باوجودبھی نہ مانیں تو ان سے جنگ کرنا جائز ہے۔

7۔۔  فقہ کی بعض کتابوں مثلاً: "قنیہ" وغیرہ میں ہے کہ بلاعذر جماعت چھوڑنے والے کو سزا دینا امامِ وقت پر واجب ہے اور اس کے پڑوسی اگر اس کے اس فعل قبیح پر کچھ نہ بولیں[ یعنی اس کو اس فعل سے نہ روکیں اور حسبِ استطاعت نصیحت نہ کریں، (بشرطیکہ اس شخص سے کسی تکلیف کا اندیشہ نہ ہو)  تووہ بھی گناہ گار ہوں گے۔

جماعت کی حکمتیں اور فوائد:

اس متعلق  حضرت مولاناشاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا خلاصہ درج ذیل ہے:

1۔۔          دنیاوی رسوم کی خرابی کو دور کرنے میں کوئی چیز اس سے زیادہ فائدہ مند نہیں کہ کوئی عبادت عام کردی جائے، یہاں تک کہ وہ عبادت ایک ضرورت بن جائے کہ اس کا چھوڑنا عادی چیزوں کے چھوڑنے کی طرح ناممکن ہوجائے اور کوئی عبادت نماز سے زیادہ اہم نہیں کہ اس کے ساتھ یہ خاص اہتمام کیا جائے۔

2۔۔          مسلمانوں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اَن پڑھ بھی، عالم بھی، لہٰذا یہ بڑی مصلحت کی بات ہے کہ سب لوگ جمع ہوکر ایک دوسرے کے سامنے اس عبادت کو ادا کریں، اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو دوسرا اسے سکھلادے، گویا اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ادائیگی ایک زیور ہوئی کہ تمام پرکھنے والے اسے دیکھتے ہیں، جو خرابی اس میں ہوتی ہے بتادیتے ہیں اور جو عمدگی ہوتی ہے اسے پسند کرتے ہیں،پس یہ نماز کی تکمیل کاایک بہترین ذریعہ ہوگا۔

3۔۔            جو لوگ بے نمازی ہوں گے ان کا بھی پتا چل جائے گا اور ان کو نصیحت کرنے کا موقع ملے گا۔

4۔۔     چند مسلمانوں کامل کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اورا س سے دعا مانگنا نزولِ رحمت اور قبولیت میں عجیب خاصیت رکھتا ہے۔

5۔۔     اس امت سے اللہ تعالیٰ کا یہ مقصود ہے کہ اس کا کلمہ بلند اور کلمۂ کفر پست ہو اور زمین پر کوئی مذہب اسلام پر غالب نہ رہے، یہ بات جب ہی ہوسکتی ہے کہ یہ طریقہ مقرر کیا جائے کہ تمام مسلمان عام اور خاص، مسافرا ور مقیم، چھوٹے اوربڑے اپنی کسی بڑی اور مشہور عبادت کے لیے جمع ہواکریں اور اسلام کی شان وشوکت ظاہر کریں، ان سب مصلحتوں کی وجہ سے ہی شریعت نے جماعت پر بھر پور توجہ کی، اس کی ترغیب دی گئی اور چھوڑنے پر سخت ممانعت کی گئی۔

6۔۔           جماعت میں یہ فائدہ بھی ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی اطلاع ہوتی رہے گی اور ایک دوسرے کے درد ومصیبت میں شریک ہوسکیں گے جس سے دینی اخوت اور ایمانی محبت کا بھر پور اظہار ہوگا،جو شریعت کا ایک بڑا مقصود ہے اور جس کی تاکید اور فضیلت جا بجا قرآنِ عظیم اور احادیثِ نبویہ میں بیان فرمائی گئی ہے۔

افسوس! ہمارے زمانے میں  جماعت چھوڑناایک عام عادت بن گئی ہے، جاہلوں وناواقفوں کا کیا ذکر، بہت سے لکھے پڑھے لوگ اس بلا میں مبتلا ہیں۔ افسوس! ہم یہ احادیث پڑھتے اور سنتے ہیں اور ان کے معانی سمجھتے ہیں مگر جماعت کی سخت تاکید ہمارے پتھر سے زیادہ سخت دلوں پر کچھ اثر نہیں کرتی۔ قیامت میں جب اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے پہلے نماز کے مقدمات پیش ہوں گے اور اس کے ادا نہ کرنے والوں یا ادا ئیگی میں کمی کوتاہی کرنے والوں سے باز پرس شروع ہوگی، اس وقت ہم کیا جواب دیں گے؟ اس کا استحضار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ 

لہذا آپ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتی رہیں اور اسے محبت، حکمت اور تدبیر سے سمجھاتی رہیں،  قرآنِ مجید کی مذکورہ آیات، احادیثِ مبارکہ اور صحابہ کرام کے اقوال سنائیں ، اور بالخصوص اس کے لیے دعائیں بھی کریں کہ ماں کی دعا اولاد کے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ نماز اور جماعت کے مزید فضائل کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ کی مقبولِ عام کتاب "فضائل اعمال" کی تعلیم کی ترتیب بھی گھر میں بنالیں تو مناسب ہوگا، اس سے ان شاء اللہ گھر کے افراد کے لیے نمازوں کا اہتمام آسان ہوجائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں