بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح مسیار کا حکم


سوال

نکاح مسیار کیا  ہے؟ اس کے اَحکام کیا ہیں؟

جواب

جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا ذکر مناسب ہے:

1۔شریعتِ  مطہرہ میں میاں بیوی کے درمیان نکاح سے حاصل ہونے والا تعلق صرف جنسی خواہش کی تکمیل نہیں،بلکہ نکاح  جسم وروح کا باہمی رشتہ ہے، اس مقدس رشتے میں میاں بیوی ایک دوسرے سے  ہمیشہ وابستہ رہنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا عہد وپیمان کرتے ہیں،میاں بیوی کے اس قدر گہرے تعلق کو قرآنِ کریم نے یوں بیان کیا ہے کہ زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیاہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:

{هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَّ} [سورۃ البقرہ،الایۃ:187]

ترجمہ:وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ،مجاہد،سعید بن جبیر ،حسن، قتادہ،سیدی اور مقاتل بن حیان رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یعنی وہ تمہارے لیے سکون کا باعث ہیں اور تم ان کے لیے سکون کا باعث ہو،اور ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ تمہارے لیے لحاف ہیں اور تم ان کے لیے لحاف ہو ۔(1)

2۔نکاح کا رشتہ  عفت و پاک دامنی کا سبب اور گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے،اسی وجہ سے  نکاح کو دو تہائی دین کہا گیا ہے، چنانچہ   تفسیر مظہری میں ہے کہ چوں کہ مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے سے لپٹے ہیں اور ہر ایک دوسرے پر لباس کی طرح مشتمل ہوجاتا ہے اس لیے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسر کے لباس سے تشبیہ دی اور یا اس  لیے کہ لباس جس طرح لباس پہننے والے کو چھپالیتاہے، اسی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کو حرام سے چھپاتے اور روکتے ہیں،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نکاح کرلیا اس نے دو تہائی دین جمع کرلیا۔(2)

نیز قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا مقصد یہ بیان فرمایاہے:

{مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَان} [النساء:25] {مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْ اَخْدَان} [المائدة:5]  یعنی نکاح کرو اس حال میں کہ تم پاک دامنی چاہتے ہو، شہوت رانی مقصود نہ ہو اور نہ ہی چوری چھپے یاری لڑانا۔ اگر نکاح کے وقت شہوت پوری کرنا ہی غرض ہو تو یہ شرعی نکاح کے مقاصد کے خلاف ہے، جسے نفلی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔

3۔نکاح کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد نسل کی حفاظت ہے، چنانچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ قرآنِ کریم کی آیت  {وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ}کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ " تلاش کرو جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیاہے،یعنی تلاش کرو جو اللہ تعالی نے تمہاری قسمت میں مباشرت کے ساتھ اولاد لوحِ محفوظ میں لکھ دی ہےاور یہی حضرت ابن عباس، ضحاک اورمجاہد رضی اللہ عنہم سے مروی ہے،اور تلاش  سے مراد یہ ہے کہ یوں دعا مانگو کہ اے اللہ جو آپ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے وہ رزق(اولاد)عطا فرمائیے،۔۔۔۔۔۔۔اور اس آیت میں اس بات کی راہ نمائی  ہے کہ نکاح کی وجہ سے مباشرت کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے پیشِ  نظر نسلِ  انسانی کی حفاظت ہو، نہ کہ صرف جنسی خواہش کی تکمیل،اس لیے کہ اللہ ر ب العزت نے  نوعِ انسانی کے بقا کے لیے ہی ہمارے اندر جماع کی شہوت کو پیدا کیا ہے جیساکہ کھانے کی چاہت کو شخصیت کی بقا  کے لیے بنایا ہے،اور صرف جنسی خواہش کی تکمیل تو جانوروں کا عمل ہے۔(3)

اسی طرح مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ میں ہے کہ نکاح کی مشروعیت اور اس کی ترغیب اور اس کو  فطری طریقہ قرار دینے کی وجہ یہی ہے کہ  نوعِ انسانی کی حفاظت ہو  اور ایسی نیک صالح اولاد  کا وجود ہو جو اس عالم کی تعمیر کر سکے ،انسانی زندگی کو بنا سکے اور خلافت کی چادر کو سنبھال  سکے،  تاکہ اپنے بعد والے کو یہ امانت حوالہ کردے،اور یہ سلسلہ جاری ہے یہاں تک کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں داخل ہوجائے۔(4)

4۔نکاح کے مقاصد کے حصول اور نوعِ  نسانی کی بقا  کے لیے ضروری ہے کہ  میاں بیوی  کا آپس میں تعلق دائمی ہو، وقتی نہ ہو، بلکہ عارضی شادی مذہبِ اسلام میں حرام ہے، اسی بات کے پیشِ نظر  نکاحِ متعہ اور موقت کو  ہمیشہ کے لیے ناجائز اور حرام قرار دیا ہے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ سے منع فرمایا ہے ۔(5)

سننِ ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ شروعِ اسلام میں متعہ ہوتا تھا کہ آدمی کسی شہر جاتا، وہاں کوئی جان پہچان نہیں ہوتی تو وہ جتنے وقت کے لیے چاہتا وہاں کسی خاتون سے شادی کرلیتا اور خاتون اس کے سامان کی حفاظت کرتی اور اس کے لیے  (کھانے، پینےکی)چیزیں بناتی، یہاں تک کہ جب یہ آیت نازل ہوئی {إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِهِمْ}(یعنی اپنی بیوی اور باندی  کے علاوہ سے جماع جائز نہیں ہے) تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان دو شرم گاہ کے علاوہ سب حرام ہے۔(6)

تمام کتبِ فقہ میں یہ بات موجود ہے کہ نکاحِ  متعہ اور نکاحِ  مؤقت باطل ہے، چنانچہ ’’ہدایہ‘‘  میں ہےکہ:نکاحِ متعہ باطل ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی عورت سے کہے کہ میں تم سے اتنے مال کے بدلہ اتنی مدت تک کے لیے فائدہ اٹھا ؤں گا،اور نکاحِ مؤقت بھی باطل ہے اور اس کی صورت یہ ہےکہ آدمی عورت سے دو گواہوں کی موجودگی میں (کچھ مدت،مثلاً) دس دن کے لیے نکاح کرے،اور اس کی وجہ  یہ ہے کہ معناً یہ متعہ ہی ہے،اور عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے ،اور اس میں کوئی قرق نہیں ہے کہ طویل مدت ذکر ہو یا قلیل،کیوں کہ مدت کا ذکر کرنا ہی متعہ کی جہت کو متعین کردیتا ہے۔(7)

اور ’’ہدایہ‘‘  کی شرح ’’عنایہ‘‘  میں ہے کہ :مصنف کی عبارت سے ان دونوں (نکاحِ متعہ اور نکاحِ مؤقت) کے مابین فرق کے سلسلے میں دو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں: 1) ایسے لفظ کا وجود جو اشتقاق میں متعہ کے ساتھ شریک ہیں، 2)نکاحِ مؤقت میں دو گواہوں کا موجود ہونا، ساتھ اس کے کہ اس میں لفظِ  تزویج یا نکاح بھی مذکور ہوتا ہے، اور مدت بھی متعین ہوتی ہے۔

اور (نکاحِ مؤقت کے عدمِ  جواز کی )دلیل یہ ہے کہ یہ متعہ کے معنی میں ہی آتا ہے اگرچہ نکاح کے  لفظ سے ہو ؛ اس لیے کہ متعہ در اصل مقاصدِ  نکاح کے ارادے کے بغیر عورت سے فائدہ ٹھانے کانام ہے ، اور نکاحِ مؤقت میں بھی یہ معنی پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ مقاصدِ  نکاح مدتِ قلیلہ میں حاصل نہیں ہوسکتے،اور عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کا ،جیسے کہ کفالت، اصیل کی براءت کی شرط کے ساتھ حوالہ بن جاتا ہے، اور حوالہ ،اصیل سے مطالبہ کی شرط لگانے سے کفالت بن جاتا ہے۔(8)

نکاح مسیار کی صورت :

نکاحِ مسیار  جو زواجِ مسیار کے نام سے معروف ہے،اس کی صورت یہ ہے کہ:

مرد حالتِ سفر یا ملازمت کےلیے  کسی دوسرے ملک میں جائے اور  اسے وہاں اپنی طبعی  خواہش پوری کرنے   کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے، یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس  چلا جاؤں گا تو طلاق دے دوں گا۔

نکاح کا بار مرد پر کم سے کم ڈالنے  کی خاطر عورت نان نفقہ اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے،لہذابیوی اپنے میکے میں رہتی  ہے، اورمرد کو جب موقع ملتا ہے وہ  بیوی سے اس کے میکے آکر  یا کچھ وقت کے لیے ساتھ کسی دوسری جگہ لے جاکر طبعی تقاضہ پورا کرتا ہے، اسے "نکاحِ مسیار"  اور عربی  زبان میں"زواجِ مسیار" کہتے ہیں،اس عمل کو جواز کا جامہ پہنا نے کےلیے ظاہری طور پر  نکاح کی شرائط و ارکان یعنی  ایجاب وقبول،گواہ اور مہروغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔

       نکاح مسیار کا حکم  :

 نکاحِ مسیار کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے ،وجوہات درج ذیل ہیں :

1۔۔۔نکاحِ مسیار کو اگرچہ نکاح یا زواج کا نام دیا جائے، لیکن اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں ہے، بلکہ اصل مقصد ایک متعین وقت تک اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت ونگرانی، ان کا نان ونفقہ،زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتوں کی کثرت،(بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فخر کا متحقق ہونا،جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ،تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا، نکاح کا سبب اس بقا  کا تعلق ہے جو اپنے وقتِ مقررہ تک کے لیے مقدر ہے، اور یہ بقا  تناسل سے ہی ممکن ہوگا۔(9)

اور اوپر کی سطور میں قرآن وحدیث کی رو سے واضح ہوچکا ہے کہ جس نکاح میں صرف شہوت رانی مقصود ہو وہ شرعی نکاح کے مقصد کے خلاف ہے۔

2۔اس عمل کے ذریعہ شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام  کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوتا ہے، چنانچہ اس نام نہاد  نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہتی ہے، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی  ہے، "علامہ ابن نجیم" رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلی ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا،حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں۔(10)

شبہ اور اس کا ازالہ:

اگر یہ کہا جائے کہ "نکاحِ مسیار"  میں عدمِ نفقہ یا طلاق دینے کی شرط یا نیت سب باطل شرطیں ہیں  جو خود ساقط ہوجائیں گی اور نکاح درست رہے گا۔

جواب :

شریعت کے اصل اور ضابطہ کے مطابق نفقہ نہ دینے یا طلاق دینے کی  شرائط باطل ہوکر عقد صحیح ہو جائے گا، لیکن عرف میں ان شرائط پر عمل کرنے کو لازم سمجھاجاتا ہے،ان شرائط پر عمل کرنا نکاح کی روح اور مقاصد کے خلاف ہے، لہذا شرط باطل ہوجانے کے بعد بھی اس قسم کے عقد کے جواز کا فتویٰ دینا مفاسد سے خالی نہیں ہے۔

3۔ اس وقتی ازدواجی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے  کی پرورش  اور ثبوتِ نسب میں بھی مسائل پیش آسکتے ہیں، اول تو یہ ممکن ہے کہ بچے کے نسب کا انکار کرے، لیکن اگر بچے کو اپنا نام دے بھی تو پرورش کے مسائل پیش آئیں گے،  یوں  اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اس طرزپر نہیں ہوسکتی جس طرح شرعی نکاح کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی پرورش ہوتی ہے، کیوں کہ مقررہ مدت پوری ہوجانے کے بعد شوہر طلاق دےکر چلا جائے گا، چوں کہ اس تعلق کی غرض حقیقت میں اپنی طبعی تقاضا پورا کرنا تھا تو شوہر بچے سے بے فکر ہوکر چلا جاتا ہے، اولاد بغیر باپ کے عمر کے مراحل طے کرتی ہے، انہیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے والا باپ میسر نہیں آتا، پھر جب اولاد کی تربیت صحیح اور محکم طریقہ سے نہیں ہو تی اور وہ مکمل نشو و نما نہیں پاتے، تو اس سے ا س کی شخصیت پر منفی اثر ہوتا ہے۔

4۔ اس قسم کی شادی میں عورت مرد کو اپنا نگران اور مسئول  نہیں سمجھتی ، جس کے نتیجے میں  شوہر کے ساتھ سلوک  میں خرابیاں پیدا ہوتی ہےاور اس طرح وہ اپنے آپ  کو بھی اور معاشرے کو بھی  نقصان پہنچاتی ہے۔

5۔ اس قسم کے عقد  میں خوا تین کی تذلیل ہے، کیوں کہ اس تعلق کا مقصد صرف اور صرف وقتِ متعینہ تک اپنی خواہش کی تکمیل ہے، وقتِ مقررہ کے بعد عورت کو مستعمل اوراق کی طرح پھینک دیا جائے، عورت کو اس قسم کی تذلیل سے محفوظ رکھنے  کے لیے شریعت نے پہلے شوہر کے لیے بیوی کو حلال کرنے کےلیے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے کو مکروہِ تحریمی (ناجائز) قرار دیا ہے۔

6۔اس قسم کی شادی میں  خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نہ میاں بیوی کی ایک ساتھ ہمیشہ کےلیے  رہائش ہوتی ہے، اور نہ ہی دونوں  میں مکمل مودت و محبت ہوتی ہے جوکہ نکاح کا لازمی جز اور مقصد ہے ۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودةً ورحمةً إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون}(سورۃ الروم،الایۃ:21)

ترجمہ:اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیبیاں بنائیں؛ تاکہ ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہم دردی پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کےلیے نشانیاں ہین جو فکر سے کام لیتے ہیں۔

اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ : بنی آدم پر اللہ تعالی کی رحمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان ہی کی جنس میں سے ان کےلیے جوڑے پیدا فرمائے،اور ان کے ما بین محبت اور رحمت کا رشتہ قائم فرمایا۔  اور رحمت انتہائی مہربانی کو کہتے ہیں،مرد عورت کو اپنے پاس یا تو اس لیے رکھتا ہے کہ مرد کو اس سے محبت ہے یا عورت پر مہربانی کی وجہ سے چوں کہ اس سے اس کا بچہ پیدا ہونا ہے یا نان نفقے میں عورت اس کی محتاج ہے یا دونوں کے درمیان باہمی محبت و الفت کی وجہ سے۔(11)

7۔  اس رشتے اور تعلق میں دوام نہیں ہے، بلکہ  أبغض المباحات "طلاق " دینے کی نیت ہے، اس لیے نکاحِ مسنون کی روح سے ہم آہنگ نہ ہونے، عمرانی حقوق کے خاطر خواہ تحفظ کا ضامن نہ ہونے اور دیگر مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس طریقہ نکاح کے جواز کا قول بھی نہیں کیا جاسکتا، علامہ سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اصل کے اعتبار سے طلاق دینا ناپسندیدہ عمل ہے اور بعض کے ہاں بلاوجہ طلاق دینا مباح نہیں ہے،کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "لعن الله كل ذواق مطلاق"( یعنی  اللہ تعالی ٰ نے نکاح کا مزہ چکھنے کے بعد طلاق دینے والے پر لعنت فرمائی ہے) ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "أيما امرأة اختلعت من زوجها من نشوز فعليها لعنة الله والملائكة والناس أجمعين" (یعنی جو  نافرمان عورت شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو)،  اسی طرح جو مرد بلاوجہ خلع دے اس کے متعلق بھی روایت منقول ہے، اس لیے کہ نکاح الللہ تعالی کی نعمت ہے اور طلاق اس نعمت کی ناشکری ہے، اور نعمت کی ناشکری حرام ہے، اور یہاں ناشکری نکاحِ مسنون کو ختم کرنا ہے؛ لہذا ضرورت کے علاوہ طلاق دینا حلال نہیں ہوگا ۔۔۔اور طلاق کو مبغوض اس  لیے کہا گیا ہے کہ اس میں نعمت کی ناشکری ہے اور نعمت کی ناشکری اس وقت ہوگی، جب آپس میں اخلاق موافق ہو۔(12)

8۔۔۔ اس قسم کا نکاح معناً"نکاحِ  موقت"ہے،  علامہ شامی وغیرہ نے نکاحِ موقت اور متعہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ:نکاحِ متعہ اور مؤقت باطل ہے،اور ان کے درمیان شیخ الاسلام نے یوں فرق بیان فرمایا ہے کہ نکاحِ مؤقت میں لفظِ نکاح یا تزویج استعمال کیا جاتاہے اور متعہ میں اتمتع ،استمتع جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ،یعنی وہ الفاظ جو متعہ کے مادہ (م۔ت۔ع) پر مشتمل ہو، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متعہ میں گواہ اور مدت کی تعیین شرط نہیں ہے،جب کہ مؤقت میں گواہ بھی ہوتے ہیں اور مدت بھی متعین ہوتی  ہے۔

اور بلاشبہ اس بات میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ شروع میں جو متعہ مباح تھا پھر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا، اس سے مراد وہی متعہ ہو جس میں ’’م۔ت۔ع‘‘  کا مادہ ہو ، اس  لیے کہ آثار سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ متعہ کہ اجازت تھی، لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ اس عمل کےلیے ’’اتمتع‘‘  جیسے الفاظ سے ہی عورت کوخطاب کرنا لازم ہو، اس لیے کہ یہ بات معروف ہے کہ لفظ کا اطلاق کرکے اس کا معنی مراد لیا جاتا ہے؛ لہذا جب ’’تمتعوا ‘‘(یا متعہ  وغیرہ کے الفاظ )کہا جائےتو اس سےمراد وہ ہوتا ہے جس میں یہ معنی پایا جائے،اور اس کا مشہور معنی یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ایسے عقد کو وجود میں لایا جائے جس سے نکاح کے مقاصد (اولاد کا حصول اور پرورش) کو پورا کرنا مقصود نہ ہو، بلکہ ایک متعین مدت تک (جنسی خواہش کی تکمیل کےلیے) عقد ہوتا ہے جو مدت کے پورا ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔(13)

9۔ اس قسم کے نکاح کی سب سے بڑی خرابی یہ ہےکہ یہ زنا کے متبادل کے طور پر متعہ کے جواز کےلیے چور دروازہ ہے، اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ جن ممالک میں اس نکاح کی اجات دی گئی ہے وہاں امیر اور صاحبِ ثروت لوگوں نے اس کا فائد اٹھاتے ہوئے جب چاہا کسی بھی لڑکی کوخرید لیا اور اس کی عزت سے کھیل  کر اس کو طلاق دےدی، بلکہ اگر یہ کہا جائے گا کہ یہ زنا بالمال ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا،اور اگر اس کی اجازت دے دی جائے تومعروف زنا کو چھوڑ کر دین بے زار لوگ  اس طریقہ سے زنا کرنے لگ جائیں گے۔

10۔ اگرچہ ابتدا میں اس نام نہاد نکاح کی وجہ طویل عرصے تک سفر میں رہنا بیان کی بھی جائے یا بطورِ شرط رکھی جائے، لیکن اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اس قسم کے نکاح کو ظاہر کرکے گھروں سے گھر والوں کی اجازت کے بغیر چلے جائیں، یوں اس نکاح کا جواز معاشرے کے شیرازہ بکھیرنے اور اس کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔

ان  تمام مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے "نکاح مسیار" (زواج مسیار) کی شرعاً اجازت نہیں۔

حوالہ جات

(1)في تفسیر ابن کثیر

وقوله: هن لباس لكم وأنتم لباس لهن قال ابن عباس ومجاهد وسعيد بن جبير والحسن وقتادة والسدي ومقاتل بن حيان: يعني هن سكن لكم وأنتم سكن لهن، وقال الربيع بن أنس: هن لحاف لكم وأنتم لحاف لهن، وحاصله: أن الرجل والمرأة كل منهما يخالط الآخر ويماسه ويضاجعه، فناسب أن يرخص لهم في المجامعة في ليل رمضان لئلا يشق ذلك عليهم ويحرجوا(ج:1،ص:375،ط:دار الکتب العلمیة)

و في روح البیان :

وجعل كل من الرجل والمرأة لباسا للآخر لتجردهما عند النوم واعتناقهما واشتمال كل منهما على الآخر أو لأن كلا منهما يستر حال صاحبه ويمنعه من الفجور وعما لا يحل كما جاء في الحديث (من تزوج فقد احرز ثلثى دينه) او المعنى هن سكن لكم وأنتم سكن لهن كما قال تعالى وَجَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِيَسْكُنَ إِلَيْها ولا يسكن شىء الى شىء كسكون أحد الزوجين الى الآخر(ج:1،ص:299،ط:دار الفکر،بیروت )

(2) في التفسیر المظهري:

ولما كان الرجل والمرأة يعتنقان ويشتمل كل منهما على صاحبه شبه باللباس- او لان اللباس كما يستر صاحبه كذلك يكون كل واحد منهما لصاحبه ستراعما لا يحل ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد احرز ثلثى دينه. (ج:1،ص:203،ط: مكتبه رشيديه– پاكستان)

(3)في روح المعاني:

{ وابتغوا مَا كَتَبَ الله لَكُمْ } أي اطلبوا ما قدره الله تعالى لكم في اللوح من الولد ، وهو المروي عن ابن عباس والضحاك ومجاهد  رضي الله تعالى عنهم وغيرهم . والمراد الدعاء بطلب ذلك بأن يقولوا : اللهم ارزقنا ما كتبت لنا ، وهذا لا يتوقف على أن يعلم كل واحد أنه قدر له ولد ، وقيل : المراد ما قدره لجنسكم والتعبير بما نظراً إلى الوصف كما في قوله تعالى : { والسماء وَمَا بناها } [ الشمس : 5 ] وفي الآية دلالة على أن المباشر ينبغي أن يتحرى بالنكاح حفظ النسل لا قضاء الشهوة فقط لأنه سبحانه وتعالى جعل لنا شهوة الجماع لبقاء نوعنا إلى/ غاية كما جعل لنا شهوة الطعام لبقاء أشخاصنا إلى غاية ، ومجرد قضاء الشهوة لا ينبغي أن يكون إلا للبهائم". (ج:1،ص:462،ط:دار الکتب العلمیة)

وفي التفسیر الراغب :وقوله تعالى: {وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ} إشارة في تحري النكاح إلى لطيفة، وهي أن الله تعالى جعل لنا شهوة النكاح لبقاء نوع الإنسان إلى غاية، كما جعل لنا شهوة الطعام لبقاء أشخاصنا إلى غاية، فحق الإنسان أن يتحرى بالنكاح ما جعل الله لنا سعلى حسب ما يقتضيه العقل والديانة، فمتى تحرى به حفظ النسل وحصن النفس على الوجه المشروع، فقد ابتغى ما كتب الله له. (ج:1،ص:399،ط: كلية الآداب - جامعة طنطا)

(4)في مقاصد الشريعة الاسلامية:

رابعاً :حفظ النسل ويراد به حفظ النوع الإنساني على الأرض بواسطة التناسل ذلك أن الإسلام يسعى إلى استمرار المسيرة الإنسانية على الأرض حتى يأذن الله بفناء العالم ويرث الأرض ومن عليها . ومن أجل تحقيق هذا المقصد شرع الإسلام المبادئ والتشريعات التالية:

شريعة الزواج : فقد شرع الإسلام الزواج ورغب فيه واعتبره الطريق الفطري النظيف الذي يلتقي فيه الرجل بالمرأة لا بدوافع غريزية محضة ولكن بالإضافة إلى تلك الدوافع ، يلتقيان من أجل تحقيق هدف سام نبيل هو حفظ النوع الإنساني وابتغاء الذرية الصالحة التي تعمر العالم وتبني الحياة الإنسانية وتتسلم أعباء الخلافة في الأرض لتسلمها إلى من يخلف بعدها حتى يستمر العطاء الإنساني وتزدهر الحضارة الإنسانية في ظل المبادئ النبيلة والقيم الفاضلة . (ج:1،ص:24،ط: الكتاب منشور على موقع وزارة الأوقاف السعودية)

(5)في الصحیح لمسلم  :

عن الربيع بن سبرة عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى يوم الفتح عن متعة النساء. (كتاب النكاح،باب نكاح المتعة وبیان أنه أبیح ... الخ،ج:1،ص:452،ط:قدیمی کتب خانه)

(6) في جامع الترمذي:

"عن ابن عباس قال: إنما كانت المتعة في أول الإسلام كان الرجل يقدم البلدة ليس له بها معرفة فيتزوج المرأة بقدر ما يرى أنه يقيم فتحفظ له متاعه وتصلح له شيأه إذا حتى نزلت الاية {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} قال ابن عباس: فكل فرج سوى هذين فهو حرام. (أبواب النکاح،باب ماجاء في نکاح المتعة،ج:1،ص:213،ط:قدیمي کتب خانه)

(7)في الهداية:

"ونكاح المتعة باطل" وهو أن يقول لامرأة أتمتع بك كذا مدة بكذا من المال وقال مالك هو جائز لأنه كان مباحا فيبقى إلى أن يظهر ناسخه قلنا: ثبت النسخ بإجماع الصحابة رضي الله عنهم وابن عباس رضي الله عنهما صح رجوعه إلى قولهم فتقرر الإجماع "والنكاح المؤقت باطل" مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام وقال زفر هو صحيح لازم لأن النكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة.

ولنا أنه أتى بمعنى المتعة والعبرة في العقود للمعاني ولا فرق بين ما إذا طالت مدة التأقيت أو قصرت لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة وقد وجد".  (کتاب النکاح،ج:2،ص:333،ط:مکتبه رحمانیه)

(8) في العناية شرح الهداية:

( والنكاح المؤقت باطل مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام ) .

والذي يفهم من عبارة المصنف في الفرق بينهما شيئان : أحدهما وجود لفظ يشارك المتعة في الاشتقاق كما ذكرنا آنفا في نكاح المتعة .

والثاني شهود الشاهدين في النكاح الموقت مع ذكر لفظ التزويج أو النكاح وأن تكون المدة معينة ( وقال زفر هو صحيح لازم ) لأن التوقيت شرط فاسد لكونه مخالفا لمقتضى عقد النكاح ، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة ( ولنا أنه أتى بمعنى المتعة ) بلفظ النكاح لأن معنى المتعة هو الاستمتاع بالمرأة لا لقصد مقاصد النكاح وهو موجود فيما نحن فيه لأنها لا تحصل في مدة قليلة ( والعبرة في العقود للمعاني ) دون الألفاظ ؛ ألا ترى أن الكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط مطالبة الأصيل كفالة .(ج:4،ص:394 )

(9) في المبسوط للسرخسي:

"ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء. (کتاب النکاح،ج:4،ص:192،ط:دار المعرفة،بیروت)

(10) في البحر الرائق:

"وقد ذكر أحكامه في البدائع في فصل على حدة فقال: منها حل الوطء لا في الحيض والنفاس والإحرام، وفي الظهار قبل التكفير ووجوبه قضاء مرة واحدة وديانة فيما زاد عليها، وقيل يجب قضاء أيضا، ومنها حل النظر والمس من رأسها إلى قدمها إلا لمانع ومنها ملك المنفعة، وهو اختصاص الزوج بمنافع بضعها وسائر أعضائها استمتاعا، ومنها ملك الحبس والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع". (کتاب النکاح،ج:3،ص:139،ط:دار الکتب العلمیة)

(11) في تفسیر ابن کثیر:

"ثم من تمام رحمته ببني آدم أن جعل أزواجهم من جنسهم، وجعل بينهم وبينهن مودة وهي المحبة، ورحمة وهي الرأفة، فإن الرجل يمسك المرأة إنما لمحبته لها أو لرحمة بها بأن يكون لها منه ولد، أو محتاجة إليه في الإنفاق أو للألفة بينهما وغير ذلك". (ج:6،ص:278،ط:دار الکتب العلمیة)

(12) في المبسوط للسرخسي:

"وإيقاع الطلاق مباح وإن كان مبغضا في الأصل عند عامة العلماء ومن الناس من يقول لا يباح إيقاع الطلاق إلا عند الضرورة لقوله صلى الله عليه وسلم: «لعن الله كل ذواق مطلاق» وقال صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة اختلعت من زوجها من نشوز فعليها لعنة الله والملائكة والناس أجمعين» وقد روي مثله في الرجل يخلع امرأته ولأن فيه كفران النعمة فإن النكاح نعمة من الله تعالى على عباده قال الله تعالى: {ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا} [الروم: 21] وقال الله تعالى: {زين للناس حب الشهوات من النساء} [آل عمران: 14] الآية وكفران النعمة حرام، وهو رفع النكاح المسنون فلا يحل إلا عند الضرورة وذلك إما كبر السن لما روي أن سودة لما طعنت في السن طلقها رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وإما لريبة لما روي «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم  وقال: إن امرأتي لاترد يد لامس، فقال صلوات الله عليه: طلقها، فقال: إني أحبها، فقال صلى الله عليه وسلم: أمسكها إذن»...ومبغض لما فيه من معنى كفران النعمة ثم معنى النعمة إنما يتحقق عند موافقة الأخلاق(کتاب الطلاق،ج:6،ص:2،ط:دار المعرفة،بیروت)

(13)في الفتاوی الشامیة:

(قوله: وبطل نكاح متعة، ومؤقت) قال في الفتح: قال شيخ الإسلام في الفرق بينهما أن يذكر الوقت بلفظ النكاح والتزويج وفي المتعة أتمتع أو أستمتع. اهـ.

يعني ما اشتمل على مادة متعة. والذي يظهر مع ذلك عدم اشتراط الشهود في المتعة وتعيين المدة، وفي المؤقت الشهود وتعيينها، ولا شك أنه لا دليل لهم على تعيين كون المتعة الذي أبيح ثم حرم هو ما اجتمع فيه مادة (م ت ع) للقطع من الآثار بأنه كان أذن لهم في المتعة، وليس معناه أن من باشر هذا يلزمه أن يخاطبها بلفظ أتمتع ونحوه لما عرف أن اللفظ يطلق ويراد معناه، فإذا قيل تمتعوا فمعناه أوجدوا معنى هذا اللفظ،، ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته، بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دام معها إلى أن ينصرف عنها فلا عقد، فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح المؤقت أيضا فيكون من أفراد المتعة، وإن عقد بلفظ التزوج وأحضر الشهود. اهـ. ملخصا وتبعه في البحر والنهر، ثم ذكر في الفتح أدلة تحريم المتعة وأنه كان في حجة الوداع وكان تحريم تأبيد لا خلاف فيه بين الأئمة وعلماء الأمصار إلا طائفة من الشيعة ونسبة الجواز إلى مالك كما وقع في الهداية غلط، ثم رجح قول زفر بصحة المؤقت على معنى أنه ينعقد مؤبدا ويلغو التوقيت؛ لأن غاية الأمر أن المؤقت متعة وهو منسوخ، لكن المنسوخ معناها الذي كانت الشريعة عليه وهو ما ينتهي العقد فيه بانتهاء المدة، فإلغاء شرط التوقيت أثر النسخ، وأقرب نظير إليه نكاح الشغار وهو أن يجعل بضع كل من المرأتين مهراً للأخرى، فإنه صح النهي عنه وقلنا: يصح موجباً لمهر المثل لكل منهما فلم يلزمنا النهي، بخلاف ما لو عقد بلفظ المتعة وأراد النكاح الصحيح المؤبد فإنه لا ينعقد، وإن حضره الشهود؛ لأنه لايفيد ملك المتعة كلفظ الإحلال فإن من أحل لغيره طعاما لايملكه فلم يصح مجازاً عن معنى النكاح كما مر. اهـ ملخصاً.

(قوله: وإن جهلت المدة) كأن يتزوجها إلى أن ينصرف عنها كما تقدم ح (قوله: أو طالت في الأصح) كأن يتزوجها إلى مائتي سنة وهو ظاهر المذهب وهو الصحيح كما في المعراج؛ لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة، بحر". (کتاب النکاح،ج:3،ص:51،ط:سعید)

وفي شرح فتح القدیر:

"ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دمت معك إلى أن أنصرف عنك فلا عقد والحاصل أن معنى المتعة عقد موقت ينتهي بانتهاء الوقت فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح الموقت أيضا فيكون النكاح الموقت من أفراد المتعة وإن عقد بلفظ التزويج وأحضر الشهود وما يفيد ذلك من الألفاظ التي تفيد التواضع مع المرأة على هذا المعنى ولم يعرف في شيء من الآثار لفظ واحد ممن باشرها من الصحابة رضي الله عنهم بلفظ تمتعت بك ونحوه. والله أعلم. (ج:3،ص:237،ط:دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں