بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ وقت میں جنازہ پڑھنا


سوال

کیا مکروہ اوقات میں نمازِ جنازہ یا کوئی اور نفلی نماز ادا کر سکتے ہیں؟  تفصیل سے آ گاہ کریں!

جواب

تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے، خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یاقضا۔  ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کااعادہ لازم ہوگا (سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیاتو کراہت کے ساتھ اداہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرناگناہ ہے)۔

اوقاتِ ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1۔عین طلوع کا وقت۔ 

2۔نصف  النہاریعنی استوائے شمس کے وقت ۔

3۔عین غروب کے وقت۔

"( وكره ) تحريماً... ( صلاة ) مطلقاً ( ولو ) قضاءً أو واجبةً أو نفلًا أو ( على جنازة وسجدة تلاوة وسهو ) ( مع شروق ) ( واستواء ) ... ( وغروب ، إلا عصر يومه ) فلايكره فعله لأدائه كما وجب". (ردالمحتار، 1/370. دارالفکر)

مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، صبح  صادق سے طلوعِ آفتاب (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک) اور عصر کی نماز ادا کرنے کے  بعد سے غروب تک۔ ان اوقات میں بھی نفل نماز پڑھنامکروہِ تحریمی ہے جب کہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں۔ (عمدۃ الفقہ،ص؛57،ط:زوار اکیڈمی)

مکروہ اوقات  میں جیسے دیگر نمازیں پڑھنا ممنوع ہیں، ایسے ہی نمازِ جنازہ پڑھنا بھی منع ہے،  لیکن یہ ممانعت تب ہے، جب کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے تیار ہوکر آچکا ہو اور تاخیر کر کے ان اوقات میں پڑھایا جائے، اگر جنازہ تیار ہو کر ان ہی اوقات میں حاضر ہوجائے تو پھر تاخیر کرنے کے بجائے ان ہی اوقات میں پڑھادینا چاہیے، اس صورت میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
مشكاة المصابيح (1/ 192):

"عن علي رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يا علي! ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤاً» . رواه الترمذي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370):

"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر، قنية (مع شروق) ... (واستواء) ... (وغروب، إلا عصر يومه) ... (وينعقد نفل بشروع فيها) بكراهة التحريم (لا) ينعقد (الفرض) وما هو ملحق به كواجب لعينه كوتر (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملاً فلا يتأدى ناقصاً، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريماً. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

 (قوله: وصلاة جنازة) فيه أنها تصح مع الكراهة كما في البحر عن الإسبيجابي وأقره في النهر. اهـ. ح. قلت: لكن ما مشى عليه المصنف هو الموافق لما قدمناه عن ح في الضابط وللتعليل الآتي وهو ظاهر الكنز والملتقى والزيلعي، وبه صرح في الوافي وشرح المجمع والنقاية وغيرها.

(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة. (قوله: أو تحريما) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.

(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلاً، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لايستحب فيها مطلقًا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں