بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مونچھوں کے متعلق شرعی احکام


سوال

مونچھ کے متعلق شرعی احکام اور اس کا شرعی انداز بتادیجیے۔

جواب

رسول اللہﷺ نے اپنے ارشادات اور طرزِ عمل سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ظاہری ہیئت اور شکل و صورت کے بارے میں بھی امت کی راہ نمائی فرمائی ہے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

 " الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ. " (رواه البخاري ومسلم)
ترجمہ :  پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں: ختنہ، زیر ناف بالوں کی صفائی، مونچھیں تراشنا، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

بعض دوسری حدیثوں میں ان چیزوں کو انبیاء و مرسلین کی سنت اور ان کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اور چوں  کہ یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں؛ اس لیے ہونا بھی یہی چاہیے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ اور یہی ان کی تعلیم ہو ۔ ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی ہے جو بلاشبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔لہٰذا مونچھ کے بال کاٹنا امورِفطرت میں سے ہے، انہیں بڑھاناشریعت میں پسندیدہ نہیں ہے. نبی کریم ﷺ کا معمول مونچھیں خوب کترنے کا تھا، اس لیے مونچھیں اچھی طرح کتروانا سنت ہے،یعنی قینچی وغیرہ سے  کاٹ کر اس حد تک چھوٹی کردی جائیں کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، احادیثِ طیبہ میں مونچھوں کے بارے میں ’’جز‘‘،’’اِحفاء‘‘اور ’’اِنہاک‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سے قینچی وغیرہ سے لینا ہی مفہوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ ان الفاظ کے معنی مطلق کاٹنے یا مبالغہ کے ساتھ کاٹنے یا لینے کے ہیں، باقی استرہ اور بلیڈ سےمنڈانا بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ قینچی کا استعمال کیاجائے۔

 اوپر کے ہونٹوں کے  دونوں جانب جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے  یہ مونچھ کی شرعی حد ہے۔

مونچھ کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہو شرعاً درست نہیں،  البتہ مونچھیں بڑی ہونے کے سبب کھانے پینے کی اشیاء میں لگ جائے تو کھانے پینے کی اشیاء مکروہ نہیں ہوں گی، لیکن ایک مسلمان کو اپنے نبی سرکاردوعالم ﷺکی اقتدا کرتے ہوئے داڑھی بڑھانی چاہیے اور مونچھیں کتروانی چاہییں۔ اور اتنی بڑی مونچھیں رکھنے پر حدیث میں  وعید وارد ہوئی ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا المكي بن إبراهيم، عن حنظلة، عن نافع، ح قال أصحابنا: عن المكي، عن ابن عمر رضي الله عنهما: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’من الفطرة قص الشارب". (صحیح البخاري،باب قص الشارب: ۷/ ۱۶۰، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: مونچھوں کا کاٹنا انسانی فطرت میں سے ہے۔

"وعن زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:’’من لم يأخذ شاربه فليس منا‘‘. رواه أحمد والترمذي والنسائي". (مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص: ۳۸۱ )

ترجمہ:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شخص مونچھیں نہیں تراشتا وہ ہم میں سے نہیں''۔

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّوَارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»". (رواه مسلم)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ۴۰روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ (صحیح مسلم)

اس کے علاوہ   کنز العمال میں بیہقی کی شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ :
”رسول اللہﷺ ہر جمعہ کو نکلنے سے پہلے اپنے ناخن تراشتے اور لبیں لیتے تھے“ ۔

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى»". (رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

وفي رد المحتار:

"واختلف في المسنون في الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن، وهو قول علمائنا الثلاثة نهر". (۲/ ۵۵۰، ط: سعید)

فتح الباری میں ہے:

"وقال القرطبي: وقص الشارب أن يأخذ ما طال على الشفة بحيث لا يؤذي الآكل ولا يجتمع فيه الوسخ". (10/347)

فتاوی محمودیہ(19/425):

’’اوپر کے ہونٹ پر دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے، یہی مونچھوں کی حد ہے ‘‘۔

شرح ریاض الصالحین لابن عثیمین میں ہے:

"الثالث: قص الشارب: وهو الشعر النابت فوق الشفة العليا وحده: الشفة كل ما طال على الشفة العليا فهو شارب".

(فتاوی شامی  550/2      ، 407/6 ،         642/1  ط:سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں