بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامی بینکاری اوربنوری ٹاؤن کامؤقف


سوال

میراسوال یہ ہے کہ اسلامک بینکنگ پرجب دارالعلوم دیوبندوالے اعتراض نہیں کرتے تو پھرآپ حضرات کیوں اعتراض کرتے ہیں؟یہ بھی واضح کیجئے کہ آپ کا فتویٰ اسلامک بینکنگ کے خلاف ہے یاموجودہ اسلامک بینکز کے خلاف ہے؟جب کہ میزان بینک مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اورآپ کے صاحبزادے کی زیرسرپرستی چل رہے ہیں،توپھراشکال کیوں؟براہ کرم تفصیلی جواب دیجئے گا۔نیزدارالعلوم دیوبندکے فتویٰ کے بارے میں بھی آگاہ کیجئے۔

مجھے اپنے سوال کی وضاحت اوراپنی تشفی درکارہے مقصود اعتراض نہیں۔

جواب

دارالعلوم دیوبندہمارے لیے انتہائی قابلِ احترام ادارہ ہے،اسی طرح مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ بھی محترم ومعززشخصیت ہیں۔ تاہم اسلامک بینکنگ کے  مسئلہ میں علماءکا جو اختلاف ہے یہ خالصتاً فقہی اورعلمی اختلاف ہے جودلائل پرمبنی ہے،ایسا فقہی اختلاف کسی شخصیت یاکسی ادارے کے احترام کے منافی بھی نہیں اورنہ ہی اس کاذاتیات سے کوئی تعلق ہے۔صرف جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ہی نہیں بلکہ ملک کے بیشتر علماء کرام متفقہ طورپراسلام کی طرف منسوب بینکاری کے نظام کو مروجہ سودی نظام کاہی ایک حصہ قراردے کراس کے عدم جوازکافتویٰ صادرکرچکے ہیں۔

مروجہ اسلامی بینکاری کوسودی نظام کاحصہ قراردینے اورعدم جوازکی بنیادی طورپردووجوہات ہیں:

1۔مروجہ اسلامی بینکاری کے لیے جوفقہی بنیادیں جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں عملی طورپرمروجہ اسلامی بینکاری کانظام ان فراہم کردہ بنیادوں پرنہیں چل رہا۔جس کی وجہ سے روایتی بینکاری اورمروجہ اسلامی بینکاری میں کوئی فرق اورخاص امتیاز نہیں رہا۔

2۔دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ جوجن فقہی بنیادوں پرمذکورہ نظام کوقائم کیاگیاوہ بنیادیں اوراصطلاحات بھی سقم سے خالی نہیں،کئی فقہی اصطلاحات میں قطع وبریدکی گئی ضعیف اورمرجوح اقوال پراعتمادوانحصارکیاگیابغیرضرورت مذہب غیرکی جانب جانے کومباح سمجھاگیاوغیرہ۔

اس طرح کی کئی وجوہات کوسامنے رکھتے ہوئے علمائے کرام نے مروجہ اسلامی بینکاری کوروایتی سودی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ نقصان دہ سمجھااس لیے اس کے ناجائزہونے اوراس سے بچنے کامکمل اہتمام کرنے کافتویٰ دیا۔


فتوی نمبر : 143609200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں