بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد نام رکھنے کی منت مانی


سوال

میں نے منت رکھی تھی کہ اللہ تعالی بیٹا عطا کرے تو اس کا نام "محمد " رکھوں گا، اللہ نے بہت بہت کرم کیا اور بیٹا عطا کر دیا ، اس کا نام "محمد"  رکھ دیاہے، لیکن دوست رشتہ دار سب کہتے ہیں کہ صرف "محمد"  پکارنے میں کبھی توہین ،گستاخی نہ ہو جائے، ساتھ کچھ اور نام رکھ لو،  کیا "محمد ارحم"  نام رکھنے سے منت پوری ہو جائے گی؟ میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟

جواب

واضح رہے کہ منت  لازم ہونے کی چند شرائط ہیں، جن کا پایا جانا شرعا  ضروری ہے:

١)  منت اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس غیر اللہ کے نام کی منت صحیح نہیں۔

٢)  منت صرف عبادت کے کام کے لیے ہو  ، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

٣) عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو "محمد"  نام  رکھنے  کی منت مانی تھی، اس میں دوسری اور تیسری شرط نہیں پائی جارہی، لہٰذا یہ منت  شرعا منعقد نہیں ہوئی، پس آپ  اپنے بیٹے کا نام رکھنے کے سلسلہ میں آزاد ہیں، چاہیں تو "محمد" نام رکھ لیں، یا "محمد" کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ کرلیں، چاہیں تو "محمد ارحم" نام رکھ لیں یا"محمد عبد الارحم"  رکھ لیں۔

تاہم "محمد" نام اس وجہ سے ترک نہ کریں کہ لوگ بے ادبی کریں گے ؛ کیوں کہ حدودِ شرع میں رہ کر بچے کی تربیت کی خاطر والدین، سرپرست اور اساتذہ بچے کو تنبیہ کرسکتے ہیں، اور حدودِ شرع سے نکل کر تنبیہ کرنا، نام بگاڑنا اور گالم گلوچ وغیرہ شرعاً جائز ہی نہیں ہے ؛ اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ناموں کو درست تلفظ کے ساتھ پکاریں، خصوصاً کسی نبی علیہ السلام یا صحابی رضی اللہ عنہ کے نام پر جو نام ہو اس کے تلفظ کی درست ادائیگی کا اہتمام کریں۔ فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143907200124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں