بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی شرعی حیثیت


سوال

زید کی اولاد نہیں تھی، اس نے اپنے رشتہ دار بکر سے کہا کہ تمہاری بچی یا بچہ پیدا ہو تو مجھے دے دینا، چنانچہ جب بکر کا بیٹا پیدا ہوا تو اس نے زید کو دے دیا ، اور اب اس بچے کو زید کی بیوی پال رہی ہے اس پر خرچہ کر رہے ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں کہ اسے مستقبل میں اپنی جائے داد  کا وارث بنائیں گے ۔

اس حوالے سے درج ذیل باتیں معلوم کرنی ہیں، براہِ کرم شرعی راہ نمائی فرما کر ممنون فرمائیں:

۱۔ کیا ہم اپنی اولاد کے مالک ہیں کہ کسی کو دے سکیں؛ کیوں کہ زید کہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کا مالک ہوں جسے مرضی دے دوں۔

۲۔ کیا ایسی اولاد بڑی ہو کر منہ بولے ماں باپ کی وارث بن سکتی ہے ؟

۳۔ یہ چیز ہمارے معاشرے میں اب عام ہوتی جا رہی ہے؛ کیوں کہ بے اولادی عام ہوتی جا رہی ہے، نتیجتاً لوگ دوسروں سے بچے لے کر پال رہے ہیں اور بعض جگہوں پر تو ولدیت تک تبدیل کر دی جاتی ہے جو شرع اور غیرت کے خلاف ہے ، کیا یہ چیز اس لیے جائز ہو سکتی ہے کہ جن کی اولاد نہیں ہوتی وہ سخت ضرورت مند ہوتے ہیں ؟

جواب

             شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حقیقی اولاد  کی طرح حیثیت نہیں ہے،  اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  بچے کی  پرورش، تعلیم وتربیت  اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }   [الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“  کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ  کسی  بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، البتہ   اگر کوئی شخص کسی  بچے کو  لے کر اس  غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت  وپروش کروں گا، اور اسے بیٹے کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف  اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے   تو یہ جائز ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد  اختصاراً  آپ کےسوالات کے  ترتیب وار جوابات درج ذیل ہیں:

1۔۔ انسان نہ اپنی جان کا مالک ہے اور نہ اپنی اولاد کی جان کا مالک ہے، بلکہ انسان اور اس کے تمام اعضا اللہ کی امانت ہیں،  باقی جس طرح اپنے بچے کو خود اپنے پاس رکھ کر اس کی پرورش کرنا جائز ہے، اسی طرح کسی اور کو گود دینا بھی جائز ہے۔

2۔۔  منہ بولے بیٹے اپنے حقیقی والد کے تو وارث بنتے ہیں، لیکن جس شخص نے ان کو گود لیا ہے ان کے ترکہ میں ان کا اولاد ہونے کی حیثیت سے حق وحصہ نہیں ہوتا۔ ہاں اپنی زندگی میں بطورِ گفٹ اسے کوئی چیز دی جاسکتی ہے اور اسی طرح  اگر وہ بچہ شرعی وارث نہ بن رہا ہو تو اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت کی جاسکتی ہے۔

3۔۔ منہ بولا بیٹا چوں کہ حقیقی بیٹا نہیں ہوتا؛ اس لیے اس کو اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے، اس کی ولدیت میں گود لینے والے کا نام درج کرانا حرام اور ناجائز ہے، ہاں گود لینے والا شخص بطورِ سرپرست اس بچے کو اپنا نام دے سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں