بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فقط توبہ سے نمازیں معاف نہیں ہوتیں


سوال

قضائے عمری کیسے ادا ہوگی جب کہ کچھ لوگوں کاکہناہے کہ جونمازیں جان بوجھ کر چھوڑی ہوں ان کی توبہ ہے قضا نہیں ہے؟ اور اس بارے میں مختلف حوالے دیتے ہیں، مگر وہ مطابقت نہیں رکھتے۔ اس بارے میں راہ نمائی فرمادیں!

جواب

انسان پر ہر گناہ سے توبہ کرنا لازم ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ انسان جب گناہ سے سچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف کردیتے ہیں ،جیساکہ حدیث شریف میں ہے:

''عن عبد الله رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال :« التائب من الذنب كمن لا ذنب له».'' (ابن ماجہ)

ترجمہ:'' حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ جس نے گناہ نہیں کیا''۔

لیکن اس کا یہ مطلب  لیناکہ قضا نمازوں کو ادا کرنا ضروری نہیں، غلط ہے۔ قضا نمازوں کی ادائیگی بہرحال لازم ہے، البتہ وقت پر نماز نہ پڑھنے کا جو گناہ ہوا وہ سچی توبہ سے معاف ہوسکتا ہے۔

لہذا قضا شدہ  نمازوں کی ادائیگی انسان پر لازم اور ضروری ہے، چاہے وہ نمازیں جان بوجھ کر قضا کی ہوں یاکسی عذر کی وجہ سے یا بھولے سے قضا ہوگئی ہوں، صرف توبہ کرلینے سے قضا  نمازیں ہرگز  معاف نہیں ہوتیں ۔مسلم شریف کی روایت میں ارشاد ہے:

''عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « من نسى صلاةً فليصلها إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك ». قال قتادة: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾''۔

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے اسے چاہیے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اس کی تائید میں آیت) ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾ پڑھی۔

مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے:

''عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إذا رقد أحدكم عن الصلاة أو غفل عنها فليصلها إذا ذكرها ؛ فإن الله يقول: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾''

ترجمہ:حضرت  انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز کے وقت سو جائے یا نماز سے غافل ہو جائے تو اسے چاہیے کہ جب اسے یاد آئے وہ نماز پڑھ لے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾ (میری یاد کے لیے نماز قائم کرو)۔

 ان احادیث مبارکہ سےواضح معلوم ہوتاہے کہ جب کبھی انسان جان بوجھ کر یاکسی عذر سے کوئی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے  تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ تنبیہ ہونے پر اس کی قضا کرے،  نیز ان احادیث میں  قضا نمازوں کی کم یا زیادہ تعداد کی کوئی قید نہیں ہے۔

قضا نمازیں پہلے اپنی رائے اورخیال غالب سے متعین کرلینی چاہییں، اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں انہیں تحریرمیں لے آئے ،پھرقضاکرتے وقت یہ نیت کرے کہ سب سے پہلے جوفجریاظہر وغیرہ رہ گئی وہ قضاکرتاہوں،اسی طرح پھر دوسرے وقت نیت کرے ۔اسی طرح ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لے یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہروقتی فرض نمازکے ساتھ  اس وقت کی ایک فوت شدہ نمازقضاکی نیت سے بھی پڑھ لیاکرے ،جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں، اتنے سال یامہینوں تک اداکرتارہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں