بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلموں کے ملک میں رہائش اور وہاں کی نیشنیلٹی حاصل کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص کے پاس مغربی ممالک کی نیشنیلٹی ہے، لیکن وہ اسلامی ملک میں قیام پذیر ہے، کیوں کہ کافرستان کے اسلام کے خلاف ماحول کی وجہ سے اب اس کا پاسپورٹ ایکسپائر ہوگیا ہے، وہ اس کو ری نیو کرانا چاہتا ہے، کیوں کہ کافرستان میں اس کے رشتہ دار، ماں باپ، بھائی بہن سب موجود ہیں، ان سے ملنے کی غرض سے، کیوں کہ اس ملک میں کسی اور پاسپورٹ پر داخل نہیں ہو سکتا، صرف اسی ملک کی نیشنیلٹی پر داخل ہوسکتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ وہ پاسپورٹ ری نیو کرسکتا ہے؟  بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نہیں کرسکتے،  کیوں کہ ان کے قوانین اسلام کے خلاف ہیں،  آپ ان کی نیشنیلٹی لے کر گویا ان کے تمام قانون کو سرِ تسلسیم خم کررہے ہیں!

جواب

جواب سے پہلے تمہیدی تفصیل ملاحظہ کیجیے:

بلا کسی ضرورت و حاجت اور شدید مجبوری کے  صرف دولت کے حصول اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے یا اپنے معاشرے میں معزز بننے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی جتلانے  کے لیے مسلم ملک سے ہجرت کرکے  غیر مسلم ممالک میں جاکر مستقل رہائش اختیار کرنا اور دار الحرب کی شناخت و قومیت کو افضل سمجھتے ہوئے دار الاسلام کی شناخت و قومیت پر ترجیح دے کر غیر مسلم ملک کی شہریت و قومیت حاصل کرنا  جائز نہیں ہے، اس لیے  کہ اس صورت میں آدمی گویا محض دنیاوی لالچ کی وجہ سے اپنے دین و ایمان کو اور اپنے دینی تشخص کو داؤ پر لگاتا ہے اور عام طور سے تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف ان اغراض کی وجہ سے غیر مسلم ممالک جاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان ممالک میں موجود گناہوں اور   منکرات کے سمندر میں ڈوب کر اگر اپنے ایمان سے محروم نہ بھی ہوں تو کم از کم اپنے دینی احکام اور دینی تشخص  سے ضرور محروم ہو جاتے ہیں، اور رفتہ رفتہ اپنے دینی لباس، حلیہ، شکل و صورت اور بود و باش میں مکمل طور پر کفار کی مشابہت  نہ صرف اختیار کرتے ہیں،  بلکہ کفار کی مشابہت کو اپنے لیے  باعثِ فخر سمجھتے ہیں،  جو کہ صریح حرام ہے، مزید یہ کہ اگر بیوی بچے  بھی ساتھ ہوں تو خاندان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ان کی دینی تربیت کا انتظام نہ کرنے  کے باعث ان کی بے دینی کا گناہ اور وبال بھی اسی شخص پر پڑے گا، چنانچہ اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت  کے بغیر کفار و مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔

البتہ اگر کوئی مسلمان کسی شدید عذر و مجبوری کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے، مثلاً بغیر کسی جرم کے اپنے ملک میں مظالم اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑ رہی ہوں اور ان مظالم سے بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہو یا کوئی شخص شدید معاشی بحران کا شکار ہو اور کوشش کے باوجود اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں  یا کوئی شخص غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے اور غیرمسلم ملک میں مقیم مسلمانوں کو دینی احکامات کی تعلیمات دینے اور ان کو دین پر جمانے کی نیت سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ  اسے اس بات کا مکمل اعتماد ہو کہ وہ غیر مسلم ملک میں شرعی احکامات کی مکمل پیروی کرکے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس ملک میں موجود منکرات اور فحاشی کے سمندر میں  اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے، اسی طرح اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو ان کے متعلق یہ اطمینان ہونا بھی شرط ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر اپنے والدین، بھائی ،بہن اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے  کسی ایسے ملک میں جانا چاہتا ہے جہاں کافروں کی حکومت ہے تو  صرف اس غرض سے عارضی طور پر وہاں جانے کی گنجائش تو ہوگی بشرطیکہ وہاں قیام زیادہ طویل نہ ہو، البتہ   اس غرض سے  اس ملک کا اپنا پاسپورٹ  رینیو (تجدید) کرانے کا حکم اس بات پر موقوف ہوگا کہ پاسپورٹ کی تجدید کا طریقہ کار کیا ہے، یعنی پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لیے  کن باتوں کا اقرار یا معاہدہ کرنا پڑتا ہے؟ اگر پاسپورٹ کی تجدید کے لیے  کسی غیر شرعی کام کرنے کا معاہدہ و  اقرار کرنا پڑتا ہو تو یہ جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر ایسی کوئی بات نہ ہو بلکہ پاسپورٹ کی تجدید کے لیے صرف اس ملک کے انتظامی قوانین کی پاس داری کا معاہدہ کرنا پڑتا ہو اور کسی غیر شرعی کام کرنے کا معاہدہ نہ کرنا پڑتا ہو تو پھر پاسپورٹ کی تجدید کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سنن أبي داود (3/ 93):

"باب في الإقامة بأرض الشرك

حدثنا محمد بن داود بن سفيان، حدثنا يحيى بن حسان، أخبرنا سليمان بن موسى أبو داود، حدثنا جعفر بن سعد بن سمرة بن جندب، حدثني خبيب بن سليمان، عن أبيه سليمان بن سمرة، عن سمرة بن جندب، أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله»".

سنن أبي داود (3/ 45):

"حدثنا هناد بن السري، حدثنا أبو معاوية، عن إسماعيل، عن قيس، عن جرير بن عبد الله، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى خثعم فاعتصم ناس منهم بالسجود، فأسرع فيهم القتل قال: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم بنصف العقل وقال: «أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين». قالوا: يا رسول الله لم؟ قال: «لاتراءى ناراهما». قال أبو داود: «رواه هشيم، ومعمر، وخالد الواسطي، وجماعة لم يذكروا جريراً».

معالم السنن (2/ 271):

"قال: أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين. قالوا: يا رسول الله! لِمَ؟ قال: لاترايا ناراهما... وقوله: لاترايا ناراهما. فيه وجوه: أحدها، معناه: لايستوي حكماهما، قاله بعض أهل العلم. وقال بعضهم: معناه أن الله قد فرق بين داري الإسلام والكفر، فلايجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم حتى إذا أوقدوا ناراً كان منهم بحيث يراها.

وفيه دلالة على كراهة دخول المسلم دار الحرب للتجارة والمقام فيها أكثر من مدة أربعة أيام.

وفيه وجه ثالث ذكره بعض أهل اللغة، قال: معناه لايتسم المسلم بسمة المشرك ولايتشبه به في هديه وشكله، والعرب تقول (ما نار بعيرك أي ما سمته) ومن هذا قولهم: (نارها نجارها) يريدون أن ميسمها يدل على كومها وعتقها ومنه قول الشاعر:

حتى سقوا آبالهم بالنار ... والنار قد تشفي من الأوار

يريد أنهم يعرفون الكرام منها بسماتها فيقدمونها في السقي على اللئام".

أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (2/ 288):

"وقوله تعالى: {لايتخذ المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين} الآية، فيه نهي عن اتخاذ الكافرين أولياء؛ لأنه جزم الفعل فهو إذا نهي وليس بخبر، قال ابن عباس: نهى الله تعالى المؤمنين بهذه الآية أن يلاطفوا ونظيرها من الآي، قوله تعالى: {لاتتخذوا بطانة من  دونكم لايألونكم خبالا}، وقال تعالى: {لاتجد قوماً يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله ولو كانوا آباءهم أو أبناءهم} الآية، وقال تعالى: {فلاتقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين}، وقال تعالى: {فلاتقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذاً مثلهم}، وقال تعالى: {ولاتركنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار}، وقال تعالى: {فأعرض عن من تولى عن ذكرنا ولم يرد إلا الحياة الدنيا}، وقال تعالى: {وأعرض عن الجاهلين}، وقال تعالى: {يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم}، وقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لاتتخذوا اليهود والنصارى أولياء بعضهم أولياء بعض}، وقال تعالى: {ولاتمدن عينيك إلى ما متعنا به أزواجا منهم زهرة الحياة الدنيا لنفتنهم فيه} فنهى بعد النهي عن مجالستهم وملاطفتهم عن النظر إلى أموالهم وأحوالهم في الدنيا.

روي أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بإبل لبني المصطلق وقد عبست بأبوالها من السمن فتقنع بثوبه ومضى؛ لقوله تعالى: {ولا تمدن عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم}، وقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لاتتخذوا عدوي وعدوكم أولياء تلقون إليهم بالمودة}، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: أنا بريء من كل مسلم مع مشرك، فقيل: لم يا رسول الله؟ فقال: لا تراءى نارهما، وقال: أنا بريء من كل مسلم أقام بين أظهر المشركين. فهذه الآي والآثار دالة على أنه ينبغي أن يعامل الكفار بالغلظة والجفوة دون الملاطفة والملاينة ما لم تكن حال يخاف فيها على تلف نفسه أو تلف بعض أعضائه أو ضرراً كبيراً يلحقه في نفسه".

قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار (7/ 530):

"وَلَاتقبل شَهَادَة الْبَخِيل ... وَذكر الخاصي عَن قاضيخان أَن الْفَتْوَى على سُقُوطهَا بِتَأْخِير الزَّكَاة من غير عذر بِخِلَاف تَأْخِير الْحَج، وبركوب بَحر الْهِنْد لانه مخاطر بِنَفسِهِ وَدينه من سُكْنى دَار الْحَرْب وتكثير سوادهم وعددهم لأجل المَال وَمثله لَا يُبَالِي بِشَهَادَة الزُّور".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں