بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرشرعی رسومات والی محفل میں شرکت کرنا


سوال

میری خالہ کی صاحب زادی کی عنقریب شادی ہے، شادی کے موقع پہ غیر شرعی رسومات ہوں گی اور مخلوط ماحول بھی ہوگا۔ اگر میں نہ گیا تو سارے رشتے دار ناراض ہوں گے، اور والدین جانے کے لیے  بہت اصرار کریں گے۔ کیا ایسی مجبوری میں میرے لیےشرکت جائز ہوگی؟ نیز ایسی صورتِ حال میں گناہ سے کس طرح رکا اور بچا جائے؟

جواب

ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی دینِ اسلام  کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چناں چہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور شور ہنگامہ کرناوغیرہ ، یہ سب ناجائز ہے۔

ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا اور شرکت کرنے والا صاحبِ وجاہت و مرتبہ نہ ہو (یعنی وہ معصیت نہ روک سکے) تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیے نہیں جانا چاہیے۔اور اس بارے میں والدین کے اصراریارشتہ داروں کی ناراضگی یا قطع رحمی کے طعنوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے،اس لیے  کہ صلہ رحمی وہ ہوگی جو شریعت کی نظر میں صلہ رحمی ہو اور قطع رحمی بھی وہی کہلائے گی جو شریعت کی نظر میں قطع رحمی ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص شرعی حکم کے پیش نظر اس طرح کی کسی تقریب یا رسوم میں شرکت نہ کرے تو اسے قطع رحمی نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اسے قطع رحمی کا گناہ ملے گا ، بلکہ ایمان کا تقاضہ ہونے کی وجہ سے اسے اس پر ثواب بھی ملے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين: إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك، وإما إن لم يكن عالماً به، فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب؛ لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام : «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها». وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة، وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة؛ لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولاتترك السنة لمعصية توجد من الغير، ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه، فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى، وإن لم يكن عالماً حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غيّر، وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل، قال أبو حنيفة - رضي الله عنه -: ابتليت بهذا مرةً، لما ذكرنا: أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلا يترك لأجل معصية توجد من الغير، هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل، وقيل: هذا إذا لم يكن إماماً يقتدى به فإن كان لا يمكث بل يخرج؛ لأن في المكث استخفافاً بالعلم والدين وتجرئةً لأهل الفسق على الفسق، وهذا لا يجوز، وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق، ولو صار لما صبر، ودلت المسألة على أن مجرد الغناء  معصية، وكذا الاستماع إليه، وكذا ضرب القصب والاستماع إليه، ألا ترى أن أبا حنيفة - رضي الله عنه - سماه ابتلاءً". (5/ 128)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"مَنْ دُعِيَ إلَى وَلِيمَةٍ فَوَجَدَ ثَمَّةَ لَعِبًا أَوْ غِنَاءً فَلَا بَأْسَ أَنْ يَقْعُدَ وَيَأْكُلَ، فَإِنْ قَدَرَ عَلَى الْمَنْعِ يَمْنَعُهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ يَصْبِرْ وَهَذَا إذَا لَمْ يَكُنْ مُقْتَدَى بِهِ أَمَّا إذَا كَانَ، وَلَمْ يَقْدِرْ عَلَى مَنْعِهِمْ، فَإِنَّهُ يَخْرُجُ، وَلَا يَقْعُدُ، وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ عَلَى الْمَائِدَةِ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَقْعُدَ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مُقْتَدًى بِهِ وَهَذَا كُلُّهُ بَعْدَ الْحُضُورِ، وَأَمَّا إذَا عَلِمَ قَبْلَ الْحُضُورِ فَلَا يَحْضُرُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَلْزَمُهُ حَقُّ الدَّعْوَةِ بِخِلَافِ مَا إذَا هَجَمَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ قَدْ لَزِمَهُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ وَإِنْ عَلِمَ الْمُقْتَدَى بِهِ بِذَلِكَ قَبْلَ الدُّخُولِ، وَهُوَ مُحْتَرَمٌ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَوْ دَخَلَ يَتْرُكُونَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ وَإِلَّا لَمْ يَدْخُلْ، كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ". ( كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي الْهَدَايَا وَالضِّيَافَاتِ، ٥/ ٣٤٣) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں