بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا عید کی نماز کے عیدگاہ جانا / عہد نبوی ﷺ میں عورتوں کو اجازت تھی تو اب کیوں منع کیا جاتا ہے؟


سوال

’’ بخاری شریف‘‘ میں واضح الفاظ کے ساتھ حدیث موجود ہے، جس میں عورتوں کو عیدیں کی نماز کے لیے عید گاہ جانے کی اجازت ہے، جب کہ احناف اس کے قائل نہیں۔ کیوں؟ واضح جواب دیں! اس حدیث کی کیا اہمیت ہے صحابہ کے پاس یہ حدیث پہنچی  تھی کہ نہیں؟

جواب

عورتوں  کے لیے   جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ فرض نماز ہو یا  عید کی نماز ہو یا تراویح  کی جماعت ہو،  حضور ﷺ کے زمانہ میں  عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں، وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے، اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی  مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی  عام مساجد سے کئی گنا زیادہ  تھا ،لیکن اس وقت  بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات  پہن کر نہ آئیں اورخوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی  آپ ﷺنے ترغیب یہی دی   کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں  نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز  پڑھنےسے افضل ہے۔

حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے  کی نماز گھر کے احاطے  کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے  کی نماز محلے  کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے  کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں"۔(الترغیب و الترہیب:۱/۱۷۸)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تک یہ احادیث اور فرامینِ رسول اللہ ﷺ پہنچے تھے، اور وہ دین کا مزاج بھی سمجھتے تھے، چناں چہ جب انہوں نے زمانے کا فساد دیکھا (جب کہ وہ زمانہ حضور ﷺ کے زمانے سے متصل تھا) تو مساجد میں خواتین کے آنے کی ممانعت فرمادی، خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواتین کو مساجد میں آنے سے منع فرمایا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور  ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ  ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے   کہ  حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا  تھا۔  ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں ؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔

لہٰذا موجودہ  پر فتن دور جس میں  فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بے زاری  کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے ،آج کے دور میں اگر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہوتے یا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا موجود ہوتیں تو موجودہ زمانہ میں عورتوں کے متعلق کیا رائے قائم کی جاتی؟! علماءِ احناف ان روایات اور دیگر نصوص کی بنا پر عورتوں کو مسجد یا عیدگاہ آنے سے منع کرتے ہیں، لہذا   عورتوں کو مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے، خواہ پردے کے ساتھ ہی کیوں نہ آئیں۔نیز عورتوں پر عید کی  نماز واجب بھی نہیں ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"(فإن قلت:) من أين علمت عائشة رضي الله تعالى عنها هذه الملازمة والحكم بالمنع وعدمه ليس إلا الله تعالى؟ (قلت:) مما شاهدت من القواعد الدينية المقتضية لحسم مواد الفساد والأولى في هذا الباب أن ينظر إلى ما يخشى منه الفساد فيجتنب لإشارته صلى الله عليه وسلم إلى ذلك بمنع الطيب والتزين؛ لما روى مسلم من حديث زينب امرأة ابن مسعود: "إذا شهدت إحداكن المسجد فلا تمس طيباً". وروى أبو داود من حديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: "لاتمنعوا إماء الله مساجد الله ولكن ليخرجن وهن تفلات". وكذلك قيد ذلك في بعض المواضع بالليل؛ ليتحقق الأمن فيه من الفتنة والفساد". (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 159) کتاب مواقیت الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد بالليل والغلس،  ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

        (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 837) رقم الحدیث؛1060، ط: دار الفكر، بيروت – لبنان)

سنن أبی داود  میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:«صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها»". (1/ 94،  کتاب الصلاۃ ،  باب ما جاء فی خروج النساء الی المسجد، ط: رحمانیہ)

صحیح  مسلم  میں ہے:

"عن عمرة بنت عبد الرحمن، أنها سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول: «لو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ما أحدث النساء لمنعهن المسجد كما منعت نساء بني إسرائيل». قال: فقلت لعمرة: أنساء بني إسرائيل منعن المسجد؟ قالت: «نعم»". (1/ 328،  کتاب الصلاۃ، باب منع نساء بنی اسرائیل المسجد، ط:دار إحياء التراث العربي – بيروت)

 البنایہ میں ہے:

 "ويكره لهن حضور الجماعات يعني الشواب منهن؛ لما فيه من خوف الفتنة،ولا بأس للعجوز أن تخرج في الفجر والمغرب والعشاء".(الهدایة)

"قال العیني:(قال: ويكره لهن حضور الجماعات) ش: أي يكره للنساء (يعني الشواب منهن) … وهذه اللفظة بإطلاقها تتناول الجُمَع والأعياد والكسوف والاستسقاء. و عن الشافعي: يباح لهن الخروج، (لما فيه) أي في حضورهن الجماعة (من خوف الفتنة) عليهن من الفساق، وخروجهن سبب للحرام، وما يفضي إلى الحرام فحرام. وذكر في كتاب الصلوات مكان الكراهة الإساءة والكراهة فحش. قلت: المراد من الكراهة التحريم ولا سيما في هذا الزمان؛ لفساد أهله". (البناية شرح الهداية-بدر الدين العيني (م:۸۵۵هـ):۲؍۳۵۴، کتاب الصلاة، باب في الإمامة،حضور النساء للجماعات، ط: دار الكتب العلمية)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان.

(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ. قال في النهر: وفيه نظر، بل هو مأخوذ من قول الإمام وذلك أنه إنما منعها لقيام الحامل وهو فرط الشهوة بناء على أن الفسقة لاينتشرون في المغرب؛ لأنهم بالطعام مشغولون، وفي الفجر والعشاء نائمون؛ فإذا فرض انتشارهم في هذه الأوقات لغلبة فسقهم كما في زماننا بل تحريهم إياها كان المنع فيها أظهر من الظهر. اهـ. قلت: ولايخفى ما فيه من التورية اللطيفة. وقال الشيخ إسماعيل: وهو كلام حسن إلى الغاية". (1/ 566،  کتاب الصلاة، باب الإمامة، ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144008200321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں