بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا تراویح کے لیے مسجد جانا


سوال

عورت کا تراویح کے لیے مسجد جانے کا کیا حکم ؟ بعض خواتین کہتی ہیں جب خواتین مدارس میں پڑھ سکتی ہیں تو مسجد میں تراویح کیوں نہیں؟ دوسرا یہ کہ جب نبی صلی االلہ علیہ وسلم نے مسجد آنے سے منع نہیں کیا تو اب کیوں علماء منع کرتے ہیں ؟

جواب

 عورتوں  کے لیے   جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا مکروہ  تحریمی ہے، خواہ فرض نماز ہو یا  عید کی نماز ہو یا تراویح  کی جماعت ہو،  حضور ﷺ کے زمانہ میں  عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں ،وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے،  اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے  اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی  مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی  عام مساجد سے کئی گنا زیادہ  تھا ،لیکن  اس وقت  بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات  پہن کر نہ آئیں اورخوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی  آپ ﷺنے ترغیب یہی دی   کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں  نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز  پڑھنےسے افضل ہے۔

حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے  کی نماز گھر کے احاطے  کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے  کی نماز محلے  کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے  کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں"۔(الترغیب و الترہیب:۱/۱۷۸)

آپ ﷺ کے  پردہ فرمانے کے بعد  جب حالات بدل گئے    اور صحابہ  کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے  اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں  تو   حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں   صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم  اجمعین  کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور  ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ  ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے   کہ  حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا  تھا۔  ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں ؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔

اس لیے موجودہ  پر فتن دور   جس میں  فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بیزاری  کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے  ،  عورتوں کو مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے، خواہ پردے کے ساتھ ہی کیوں نہ آئیں،  بلکہ عورتیں اپنے گھروں میں نماز اداکریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

باقی  جس طرح مردوں کے لیے شرعی احکامات سیکھ کر ان پر عمل کرنا ضروری ہے، اسی طرح  خواتین کے لیے بھی دین کے بنیادی احکامات سیکھنا ضروری ہے، اگر ان کے لیے گھر میں والد ، بھائی یا شوہر وغیرہ سے سیکھنا ممکن ہوتو وہیں سیکھیں،لیکن عام طور پر گھروں میں یہ مشکل ہوتا ہے ؛ اس لیے اگر گھر میں انتظام نہ ہو تو خواتین کے لیے  پردے کے ساتھ کسی  قریبی بنات کے  مدرسہ میں جاکر تعلیم حاصل کرلینے  کی گنجائش ہے ، بشرطیکہ کوئی اور شرعی مانع نہ ہو، تاکہ دینی احکامات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہو، جب کہ نماز گھر میں پڑھنے میں ایسا کوئی عذر نہیں،  بلکہ گھر میں نماز پڑھنے  میں ان کے لیے زیادہ اجر وثواب ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں