بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عرفہ کے دن کا روزہ کس ملک کے حساب سے ہوگا؟


سوال

ایک میسج چل رہا ہے کہ احادیث کے مطابق عرفہ کے دن کا روزہ ہے (نہ کہ 9 ذالحج کا) اور عرفہ کا تعلق وقوفِ عرفات سے ہے، اور وقوف ہمارے پاکستان کے اعتبار سے 8 ذوالحجہ کو ہو گا؛ لہٰذا ہمیں بھی اپنی 9 ذو الحجہ کے بجائے سعودیہ کا اعتبار کرتے ہوئے اپنی 8 کو روزہ رکھنا چاہیے۔ وہ میسج بھی بھیج رہا ہوں۔

جواب

یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت:

احادیث میں یومِ عرفہ کے روزے کی غیر معمولی فضیلت بیان کی گئی ہے. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
''صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ ''. (مسلم:1162،ابوداؤد:2425،ترمذی:749،ابن ماجه: 1730، احمد:22530)
ترجمہ:مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔

نو ذوالحجہ کو یومِ عرفہ کہنے کی وجوہات:

نو(۹)ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘کہنے کی فقہاء نے تین وجوہات بیان کی ہیں:
(1)  حضرت ابراہیم کو آٹھ(۸) ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا، پھرنو(۹)ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سےہی ہے،  چوں کہ حضرت ابراہیم کویہ معرفت اور یقین نو(۹)ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو(۹) ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔
(2) نو ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل  علیہ السلام نےحضرت ابراہیم  علیہ السلام کوتمام "مناسکِ حج" سکھلائے تھے، مناسکِ حج کی معرفت کی مناسبت سے نو(۹)ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔

(3) نو(۹) ذی الحجہ کو حج کرنے والے حضرات چوں کہ میدانِ عرفات میں وقوف کے لیے جاتے ہیں،تو اس مناسبت سے نو(۹)ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" بھی کہہ دیتے ہیں۔

مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ تسمیہ کے اعتبار سے’یومِ عرفہ‘کوصرف وقوفِ عرفہ کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف وجوہات کی بنا پر (۹)ذی الحجہ کادوسرا نام ہے، لہٰذا یہ دن ہر ملک میں اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگا،یعنی دیگر ممالک میں جس دن نو(۹) ذی الحجہ ہوگی وہی دن ’یومِ عرفہ ‘کہلائے گا، خواہ اس دن سعودی عرب میں یومِ عرفہ نہ ہو۔

ہر ملک کی چاند کی تاریخ کے اعتبار سے نو ذوالحجہ کا اعتبار کرنے کے دلائل:

نیز یہ بھی واضح رہے کہ :

1۔۔مذکورہ مسئلہ کا دارومدار ا س بات پر ہے کہ سعودی عرب کی رؤیتِ ہلال دیگر ممالک کے حق میں معتبرہے یا نہیں؟ اس بارے میں احناف کا راجح قو ل یہ ہے کہ بلادِبعیدہ جن کےطلوع وغروب میں کافی فرق پایاجاتا ہے ان کی رؤیت ایک دوسرے کے حق میں معتبر نہیں ہے، اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کے مطلع میں کا فی فرق ہونا بار بار کے مشاہدہ سے ثابت ہے، لہذا جس طرح نماز وں کے اوقات تہجد اور سحر و افطاروغیرہ میں ہر ملک کا اپنا وقت معتبر ہے، سعودی عرب میں نمازوں کے اوقات کو دیگر ممالک میں نمازوں کے لیے معیار قرار نہیں دیا جاسکتا ، اسی طرح عید ،روزہ اور قربانی میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت کا اعتبارہوگا ،اور عرفہ کے روزہ کے بارے میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت معتبرہوگی، لہذا جس دن دیگر ممالک  کے حساب سے ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہوگی اسی دن روزہ رکھنے سے ’یومِ عرفہ‘ کے روزے کی فضیلت حاصل ہوگی،اگر چہ اس دن مکہ مکرمہ میں عید کا دن ہو۔

2۔۔بعض احادیث میں روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے یوم عرفہ کے بجائے  9 ذی الحجہ کے الفاظ مذکور ہیں. مثلاً بعض امہات المؤمنین بیان کرتی ہیں:
''کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله علیه و سلم یَصُومُ تِسْعَ ذِی الحِجَّةِ وَیَومَ عَاشُورَاء'' . (ابوداؤد :2437، نسائی :2372،2417، احمد: 22334،27376)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذی الحجہ کے 9 دن اور عاشوراء کے روزے رکھا کرتے تھے."یعنی یہ روزہ در اصل 9 ذی الحجہ کا ہے، کیوں کہ عشرہ ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن میں سے ہر روزے  کی فضیلت احادیث میں مستقل طور پر آئی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک سے آٹھ تاریخ تک کے روزوں کی فضیلت پوری دنیا کی اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہے، لہٰذا نو ذوالحجہ کے روزے کی فضیلت بھی ہر ملک کی اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگی۔

3۔۔ صومِ یوم عرفہ کے لیے سعودی عرب کے 9 ذی الحجہ کا اعتبار کرنے سے ایک پیچیدگی  لازم آئے گی، دنیا کے بعض ممالک کی تاریخیں سعودی عرب سے ایک دن پہلے کی ہوتی ہیں، (یعنی وہ ممالک جہاں چاند کی پیدائش اور طلوع وغروب سعودی عرب سے پہلے ہو) مثلاً: جس دن سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ ہے، اس دن بعض ممالک میں 10 ذی الحجہ ہوگا. 10 ذی الحجہ کو اس ملک کے مسلمان عید الاضحٰی منائیں گے اور اس دن ان کے لیے روزہ رکھنا ناجائز ہوگا، پھر وہ اس دن کو سعودی عرب کی متابعت میں 'یوم عرفہ' مان کر اس میں روزہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟

4 ۔۔ اسلام صرف اکیسویں صدی کا مذہب نہیں ہے، جدید ذرائعِ ابلاغ سے آج کل معلوم ہوجاتا ہے کہ سعودی عرب میں کس دن "یومِ عرفہ" ہے. پہلے کی صدیوں میں، جب یہ جاننے کے ذرائع نہیں تھے، اس وقت بھی لوگ "یومِ عرفہ" کا روزہ اپنے یہاں کی تاریخ کے حساب سے رکھتے تھے. آج کل بھی دنیا کے تمام خطوں میں ہر شخص کو جدید ترین سہولیات حاصل نہیں ہیں، تمام لوگوں کے لیے اب بھی دوسرے علاقوں کے بارے میں بروقت معلومات حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا،  اس لیے اب بھی مناسب، آسان اور قابلِ عمل یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ملک کے لوگ اس دن عرفہ کا روزہ رکھیں جس دن ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو.

5 ۔۔ 'یوم' (دن) کا اطلاق طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کے وقت پر ہوتا ہے اور 'صوم' (روزہ) طلوعِ فجر سے شروع ہوتا اور غروبِ آفتاب پر مکمل ہوتا ہے. اگر 'صومُ یومِ العرفۃ' (یوم عرفہ کا روزہ رکھنے) میں سعودی عرب کی نوذوالحجہ کا اعتبار کیا جائے؛ اس لیے کہ اس دن وہاں وقوفِ عرفہ ہے تو  پھر روزہ کے آغاز و اختتام کے سلسلے میں بھی سعودی عرب کے اوقات کی پابندی ہونی چاہیے۔ پھر تو عرفہ کا روزہ دنیا کے ہر خطے میں اس وقت شروع کیا جائے جب سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ کو طلوعِ فجر کا وقت ہو اور اُس دن اُس وقت افطار کر لیا جائے جب سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب کا وقت ہو، حال آں کہ یہ بات بالکل ہی غیر معقول ہوگی، اس وقت مشرقِ بعید اور مغربِ بعید میں رات کا وقت ہوگا، اور قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی میں یا تو مسلسل رات ہوگی یا مسلسل دن ہوگا، اور سعودی عرب کی تاریخ کے اعتبار سے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں ان ممالک میں شرعی احکام کی مخالفت اور حرج لازم آئے گا؛ لہٰذا روزے کے اوقات کے معاملے میں لوگ اپنے اپنے علاقے کے پابند ہوں گے.

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان "یومِ عرفہ" کا روزہ سعودی عرب کی تاریخ کے حساب سے رکھنے کے پابند نہیں ہیں، سعودی عرب کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو، اور دوسرے ممالک کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو. البتہ پاکستان اور وہ مشرقی ممالک جو سعودی عرب سے ایک تاریخ پیچھے ہوتے ہیں، وہاں کے مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ آٹھ اور نو ذوالحجہ دونوں دن روزہ رکھ لیا کریں، کیوں کہ عشرہ ذوالحجہ کے ہر روزے کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور ان ممالک کے لوگوں کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔

البناية شرح الهداية - (4 / 211)
''وإنما سمي يوم عرفة؛ لأن جبريل -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علم إبراهيم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المناسك كلها يوم عرفة، فقال: أعرفت في أي موضع تطوف؟ وفي أي موضع تسعى؟ وفي أي موضع تقف؟ وفي أي موضع تنحر وترمي؟ فقال: عرفت؛ فسمي يوم عرفة''.
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي - (2 / 23)
'' قَوْلُهُ: أَيْ تَفَكَّرَ أَنَّ مَا رَآهُ مِنْ اللَّهِ) أَيْ أَمْ مِنْ الشَّيْطَانِ؟ فَمِنْ ذَلِكَ سُمِّيَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ؛ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةَ هَمَّ بِنَحْرِهِ؛ فَسُمِّيَ يَوْمَ النَّحْرِ، كَذَلِكَ فِي الْكَشَّافِ''.

العناية شرح الهداية - (3 / 452)
''فَلَمَّا أَمْسَى رَأَى مِثْلَ ذَلِكَ ، فَعَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى ؛ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ.... وَإِنَّمَا سُمِّيَ يَوْمُ عَرَفَةَ بِهِ؛ لِأَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَّمَ إبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا يَوْمَ عَرَفَةَ، فَقَالَ لَهُ : أَعَرَفْت فِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَطُوفُ ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَسْعَى ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَقِفُ ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَنْحَرُ وَتَرْمِي ؟ فَقَالَ عَرَفْت ، فَسُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَسُمِّيَ يَوْمُ الْأَضْحَى بِهِ؛ لِأَنَّ النَّاسَ يُضَحُّونَ فِيهِ بِقَرَابِينِهِمْ'' .

تفسير البغوي - (7 / 48)
'' أمر في المنام أن يذبحه، وذلك أنه رأى ليلة التروية كأن قائلاً يقول له: إن الله يأمرك بذبح ابنك هذا، فلما أصبح روی في نفسه أي: فكر من الصباح إلى الرواح أمِنَ الله هذا الحلم أم من الشيطان؟ فمن ثم سمي يوم التروية، فلما أمسى رأى في المنام ثانيًا، فلما أصبح عرف أن ذلك من الله عز وجل؛ فمن ثم سمي يوم عرفة''.

الإنصاف - (3 / 244)
''سمي يوم عرفة؛ للوقوف بعرفة فيه، وقيل: لأن جبريل حج بإبراهيم عليه الصلاة والسلام، فلما أتى عرفة، قال: عرفت، قال: عرفت، وقيل: لتعارف حواء وآدم بها''.

المغني - ابن قدامة - (3 / 112)
''فأما يوم عرفة فهو اليوم التاسع من ذي الحجة، سمي بذلك؛ لأن الوقوف بعرفة فيه، وقيل: سمي يوم عرفة؛ لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه، فأصبح يومه يتروى هل هذا من الله أو حلم؟ فسمي يوم التروية، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضاً، فأصبح يوم عرفة، فعرف أنه من الله؛ فسمي يوم عرفة، وهو يوم شريف عظيم، وعيد كريم، وفضلة كبير، وقد صح عن النبي صلى الله عليه و سلم أن صيامه يكفر سنتين''.

تبيين الحقائق وحاشية الشلبي - (1 / 321)
''قال - رحمه الله - :(ولا عبرةباختلاف المطالع) وقيل: يعتبر، ومعناه أنه إذا رأى الهلال أهل بلد ولم يره أهل بلدة أخرى يجب أن يصوموا برؤية أولئك كيفما كان على قول من قال: لا عبرة باختلاف المطالع، وعلى قول من اعتبره ينظر فإن كان بينهما تقارب بحيث لا تختلف المطالع يجب، وإن كان بحيث تختلف لا يجب، وأكثر المشايخ على أنه لا يعتبر حتى إذا صام أهل بلدة ثلاثين يوماً وأهل بلدة أخرى تسعة وعشرين يوماً يجب عليهم قضاء يوم، والأشبه أن يعتبر؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم، وانفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار، كما أن دخول الوقت وخروجه يختلف باختلاف الأقطار، حتى إذا زالت الشمس في المشرق لا يلزم منه أن تزول في المغرب''.

بدائع الصنائع - (2 / 83)
''هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر؛ لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف، فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر''.

العرف الشذي للعلامةالكشميري (2/ 217)
''وقال الزيلعي شارح الكنز : إن عدم عبرة اختلاف المطالع إنما هو في البلاد المتقاربة لا البلاد النائية ، وقال كذلك في تجريد القدوري ، وقال به الجرجاني ، أقول : لا بد من تسليم قول الزيلعي، وإلا فيلزم وقوع العيد يوم السابع والعشرين أو الثامن والعشرين أو يوم الحادي والثلاثين أو الثاني والثلاثين؛ فإن هلال بلاد قسطنطنية ربما يتقدم على هلالنا بيومين ، فإذا صمنا على هلالنا، ثم بلغنا رؤية هلال بلاد قسطنطنية يلزم تقديم العيد ، أو يلزم تأخير العيد إذا صام رجل من بلاد قسطنطنية ثم جاءنا قبل العيد، ومسألة هذا الرجل لم أجدها في كتبنا ، وظني أنه يمشي على رؤية من يتعيد ذلك الرجل فيهم ، وقست هذه المسألة على ما في كتب الشافعية : من صلى الظهر ثم بلغ في الفور بموضع لم يدخل فيه وقت الظهر إلى الآن أنه يصلي معهم أيضاً، والله أعلم وعلمه أتم ، وكنت قطعت بما قال الزيلعي، ثم رأيت في قواعد ابن رشد إجماعاً على اعتبار اختلاف المطالع في البلدان النائية ، وأما تحديد القرب والنائي فمحمول إلى المبتلى به، ليس له حد معين وذكر الشافعية في التحديد شيئاً''.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں