بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے کا طریقہ


سوال

میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں، اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ میں نے اس سے 5ماہ سے ہم بستری نہیں کی،  کیا میں فوری طلاق کے بعد نکاح کر سکتا ہوں؟  میں نے اسے سنہ 2016  میں ایک طلاق دی تھی پھر رجوع ہو گیا تھا،  اب کیا میں2  طلاق دوں یا  3 طلاق؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اولاً تو گھر بسانے اور ساتھ نباہنے کی حتی الامکان کوشش کیجیے، طلاق دینا شرعاً اور معاشرۃً پسندیدہ نہیں ہے، بڑوں کو بٹھاکر بات بن سکتی ہو تو ایسا کرنے سے دریغ نہ کیجیے، اگر طلاق دینا ہی ضروری ہو اور نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو  بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ایسے طہر (پاکی کے ایام) میں ایک طلاق دےدیں جس میں آپ بیوی کے قریب نہ گئے ہوں، اس کے بعد جیسے ہی اس کی تین ماہواریاں گریں گی وہ، آپ سے بائن ہو جائے گی، اور عورت کے لیے عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرنا جائز ہوگا۔ تاہم  آپ  دوسری شادی طلاق دینے سے پہلے اور طلاق دینے کے فوراً بعد بھی کرسکتے ہیں، عدت عورت پر لازم ہوتی ہے نہ کہ مرد پر۔

بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاً انتہائی ناپسندیدہ ہے، اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں۔ لیکن اگر تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی جائیں تو  بھی واقع ہوجاتی ہیں،اورتین طلاق کے بعد رجوع  اور تجدیدِ نکاح کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:''

" بلاوجہ شرعی طلاق دیناسخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کوناراض کرنااور شیطان کوخوش کرناہے،البتہ اگروجہ سے شوہراور بیوی میں ایسی رنجش ہوگئی ہوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال ہورہے ہوں،اورطلاق کے بغیرچارہ ہی نہ ہوتوطلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہرایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے،غصہ اور جوش میں آکرتین طلاق دینے کاجورواج چل پڑاہے،بلکہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیرطلاق ہی نہیں ہوتی، یہ بالکل غلط ہے،ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے،اورشوہرعدت میں رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ(یعنی نکاح سے جدا)ہوجاتی ہے،اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،جوش اورغصہ میں آکرتین طلاق دے دیتے ہیں ،جب جوش اور غصہ ختم ہوتاہے توپچھتانے اور پریشانی وپشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر ایک  طلاق دی ہوتی اور اس کے بعد شوہرکاارادہ بیوی کواپنے پاس رکھنے کاہوتوبہت آسان ہے، صرف قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے،عورت اس کے نکاح میں رہے گی، رجوع پرگواہ بنالینابہترہے، اوراگرعدت پوری  ہوگئی اوراس کے بعد دونوں کاارادہ ساتھ رہنے کاہوجائے تودونوں کی رضامندی سے تجدیدنکاح (دوبارہ نکاح کرنا)کافی ہوگا،البتہ اس کے بعد شوہردوطلاق کامالک ہوگا"۔(فتاویٰ شامی،3/230،ط:ایچ ایم سعید-فتاویٰ رحیمیہ،جلدہشتم،ص:290،ط:دارالاشاعت کراچی)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں