بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شئیرز کے کاروبار کے جواز کی شرائط اور قبضہ کا تحقق


سوال

 آپ نے سٹاک مارکیٹ کے کاروبار پر جو فتویٰ دیا اس سے بات پھر بھی واضح نہیں ہوئی, مجھے اس کی شرعی حیثیت کا تعین درکار ہے کہ آیا یہ حرام ہے یا حلال؟  فرض کریں میں کسی ایسی کمپنی کے شئیر لیتا ہوں جو بظاہر ایک حلال کام کرتی ہے، مثلاً ڈی جی خان سیمنٹ اور پھر میں اس کو قبضہ کے بعد(میرے علم کے مطابق دو دن ضروری ہیں کسی چیز پر قبضہ ثابت کرنے کے لیے) منافع پر بیچتا ہوں تو کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شیئرز کی خرید وفروخت کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:

 1۔۔ جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو  واقعۃً وہ کمپنی یا ادارہ موجود ہو، یعنی اس کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا کاروبار  موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا کمپنی یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو  اور اس کے شیئرز بازار میں اس لیے چھوڑے گئے ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کیے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز نہیں،   کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل میں جمع شدہ روپے کی رسید ہے، کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔

2۔۔ کمپنی کا کل یا کم از کم غالب سرمایہ جائز اور حلال ہو۔

الف :  یعنی جس موجود کمپنی اور جاری کاروبار یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کیے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز  اور حلال ہو، رشوت، چوری،غصب، خیانت،سود، جوئے اور سٹہ پر حاصل شدہ رقم نہ ہو ، لہذا سودی ادارے  جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔

ب  : کمپنی  کے شرکاء میں سودی  کاروبار کرنے والے یا کسی اور ناجائز اور حرام  کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کی رقم شامل نہ ہو۔

3۔۔ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔

الف :   یعنی کمپنی یا ادارہ   کے کاروبار کے طریقہ کے درست  ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ  کمپنی یا ادارہ کا کاروبار بھی جائز ہو، مثلاً شرعی شراکت  اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر کاروبار ہو ، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز  کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی۔

ب :   اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، مثلاً  شراب، جان دار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلم  سینما وغیرہ کے کاروبار والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت  بھی ناجائز ہے۔

4۔۔ شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا۔

یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ  کے شیئرز کی خریدوفروخت بیع وتجارت  کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی  جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو  اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔

واضح رہے کہ  شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے  صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے،  اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر  ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے، البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں   اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کردے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے ، اس کے بعد اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی، یا  شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔

5۔۔ منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں  کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا۔   مثلاً  کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں  ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے  منافع میں سے مثلاً ٪20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز  اور حرام ہے؛  کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔ (ماخوذ از  جواہر الفتاوی،  م؛ مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب،  3/258، ط؛ اسلامی کتب خانہ)

 مذکورہ تفصیل کی رو  سے صورتِ مسئولہ میں سائل  کے لیے شیئرز کو فروخت کرنا اس  صورت میں جائز ہوگا جب سائل کو خریدے گئے شیئرز کی باقاعدہ  ڈیلیوری مل جائے، یعنی جس کمپنی کے حصص بیچے گئے ہیں اس کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی (C.D.C) کے ذریعے ان حصص کی منتقلی سائل (خریدار) کے نام ہوجائے، لہذا سی ڈی سی اکاؤنٹ میں سائل کے نام   پر شئیرز منتقل ہونے سے پہلے شیئرز کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم

حدیثِ مبارکہ میں ہے:

"حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: الذي حفظناه من عمرو بن دينار، سمع طاوسًا، يقول: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم «فهو الطعام أن يباع حتى يقبض»، قال ابن عباس: ولاأحسب كلّ شيءٍ إلا مثله". (صحیح البخاری،  1/286 ، باب بیع الطعام قبل ان یقبض،  ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"قبض كل شيء وتسليمه يكون بحسب ما يليق به". (5/248، کتاب الوقف، ط؛ سعید)

بدائع الصنائع میں ہے؛

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن بيع ما لم يقبض»، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر»". (5/180، کتاب البیوع، ط: سعید) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144104200362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں