بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ربیع الثانی 1446ھ 09 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کم داموں میں خرید کر مہنگے داموں میں فروخت کرنا جائز ہے تو انشورنس کیوں حرام ہے؟


سوال

مثال کے طور پہ زمین کم داموں میں خریدی گئی، پھر اسے من چاہے  داموں میں فروخت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ انشورنس پالیسی میں کام کرنے والے عموماً یہ کہتے ہیں کہ جب آپ زمین کم قیمت پر خرید کر زیادہ نفع لے کر فروخت کرتے ہیں تو وہ اگر حرام نہیں تو انشورنس کیوں کر حرام ہے ؟

جواب

زمین کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت پر بیچنا جائز ہے؛ اس لیے کہ یہ ’’بیع‘‘ ہے۔ اور انشورنس ناجائز ہے؛ اس لیے کہ اس میں’’ربا‘‘(سود) اور ’’قمار‘‘ (جوا) ہے۔

وہ ہم جنس اموال یا اشیاء جن کا تعلق مکیلی (ناپی جانے والی اشیاء) یا موزونی (وزن کی جانے والی اشیاء اور سونا، چاندی وغیرہ اسی میں نقود بھی داخل ہیں) اشیاء سے ہو ان کے باہم تبادلے کی صورت میں کمی زیادتی ’’ربا‘‘ کہلاتی ہے، اور مختلف الاجناس اشیاء جن کے ناپنے یا وزن کا پیمانہ بھی ایک نہ ہو، کا باہمی رضامندی سے تبادلہ’’ بیع‘‘ ہے، اس میں کمی زیادتی ’’ربا‘‘ نہیں، بلکہ ’’ربح‘‘ کہلاتاہے۔

زمین نقدی یا کسی اور جنس کی صورت میں خرید کر زیادہ قیمت پر بیچی جائے تو یہاں دونوں معاملات میں ہم جنس وزنی یا کیلی چیز کا تبادلہ نہیں ہے، لہٰذا یہ ’’بیع‘‘ ہے، اور اس میں ’’ربا‘‘ نہیں ہے۔ اور انشورنس میں ’’بیع‘‘ (باقاعدہ خرید وفروخت) نہیں ہوتی (اور نہ ہی مقصود ہوتی ہے)، بلکہ رقم جمع کرواکر زیادہ رقم حاصل کرنا یا اس سے مستفید ہونا مقصد ہوتاہے؛ لہٰذا انشورنس ’’سود‘‘ اور ’’جوا‘‘ کا مجموعہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ’’بیع‘‘ کو حلال کیا ہے اور ’’ربا‘‘ اور ’’قمار‘‘ کو حرام کیا ہے، اور ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے۔

 انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  کیوں کہ شر یعت میں ایک جنس کی رقم  کاتبادلہ اگر  آپس میں  کیا جائے تو برابری کے ساتھ لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا سود ہے۔ اور اس میں  جوا بھی شامل ہے ، ''جو ا'' جسے عربی زبان میں’’قمار‘‘کہا جاتا ہے در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، اور انشورنس میں  "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

سود کی حرمت پر مشرکین نے بھی اسی نوعیت کا اعتراض کیا تھا کہ ’’ربا‘‘ کا نفع بھی تو ’’بیع‘‘ کے نفع کی طرح ہے، بلکہ انہوں نے نفع کے پہلو کو اصل سمجھ کر ’’ربا‘‘ کے معاملے کو اصل قرار دیا اور ’’بیع‘‘ کو اس سے تشبیہ دی کہ ’’بیع‘‘ بھی تو ’’ربا‘‘ ہی کی طرح ہے، پھر ’’ربا‘‘ کیوں کر حرام اور ’’بیع‘‘ کس وجہ سے جائز ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جل شانہ نے ان کے اعتراض کے جواب میں قرآنِ کریم میں یہی ارشاد فرمایا:  

{الَّذِيْنَ يَأْكُلُوْنَ الرِّبَا لَا يَقُوْمُوْنَ إِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوْآ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَآءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ ٓإِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} [البقرة: 275]

 ترجمہ:  " اور جو لوگ سود کھاتے ہیں،  نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شحص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر (یعنی حیران و مدہوش) ، یہ سزا اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے،  حال آں  کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اسی کا رہا اور (باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالہ رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جاویں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (275)

لہذا اس وجہ سے انشورنس حرام اور ناجائز ہے، اور زمین کو خرید کر منافع کماکر باہمی رضامندی سے  فروخت کرنا جائز ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

شرح معانی الآثار میں ہے:

’’عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»‘‘. (2/313، کتاب الکراهة، ط: حقانيه)

صحیح مسلم  میں ہے:

’’عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»‘‘. (3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

’’عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر‘‘. (4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط: مکتبہ رشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

’’وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ‘‘. (6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں