کیا دو بچوں کے بعد وقفہ کرنا گناہ ہے؟
کسی عذر کے بغیر ضبطِ تولید اور بچوں کے درمیان وقفہ کرنا شرعاً مقاصد نکاح کے خلاف ہے، اس لیے منع ہے اور عذر میں بھی کوئی ایسی صورت اپنانا جائز نہیں ہےجس سے قوتِ تولید بالکلیہ ختم ہوجائے۔ مثلاً: رحم (بچہ دانی) نکال دینا یا حتمی نس بندی کرادینا وغیرہ۔
ضرورت کے وقت ایسی مانعِ حمل تدابیر اپنانے کی گنجائش ہے جو وقتی ہوں اور جب چاہیں اُنہیں ترک کرکے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا ہو، ایسی تدبیریں عزل کے حکم میں ہیں۔
چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں عارضی مانعِ حمل تدابیر بلاکراہت جائز ہے:
1۔ عورت اتنی کم زور ہو کہ حمل کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو ۔
2۔۔ دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچےکے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔
3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو، اور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔
4۔۔۔۔ اسی طرح طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔
5۔۔۔ ۔۔ مسلسل ولادت کی صورت میں بچوں کی تربیت میں سخت حرج کا لاحق ہونا۔
مذکورہ صورتوں میں عزل کرنے کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے ، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔ نیز صرف معاشی تنگی کے خوف سے بچوں کا سلسلہ موقوف کرنا بھی ناجائز ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201418
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن