کیا ہر فرض نماز کے بعد دعا میں درود شریف پڑھنا فرض ولازم ہے؟اور کیا اس کے بغیر دعا ہو جاتی ہے؟
دعا خواہ فرض نماز کے بعد ہو یا کسی اور موقع پر اس میں درود شریف پڑھنا فرض اور لازم نہیں، البتہ دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اس سے دعا میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی آسمان کی طرف بلند نہیں ہوتا جب تک تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجو۔ (ترمذی)
'' عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: إن الدعاء موقوف بین السماء والأرض لا یصعد منها شيء حتی تصلی علی نبیک ۔ رواه الترمذي''۔ (مشکاة المصابیح، باب الصلاة علی النبي صلی الله علیه وسلم، الفصل الثالث، ص:87 ط: قدیمی)
نیز یہ کہ درود شریف خود ایک دعا ہے جو شخص درود شریف کا اہتمام کرتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجتیں بغیر مانگے غیب سے پوری فرماتے ہیں۔
سنن الترمذي - شاكر + ألباني (4/ 636)
'' قال أبي: قلت: يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك، فكم أجعل لك من صلاتي ؟ فقال: ما شئت، قال: قلت: الربع؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: النصف؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قال: قلت: فالثلثين؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: أجعل لك صلاتي كلها، قال: إذا تكفى همك، ويغفر لك ذنبك'' . قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.''
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتاہوں، اپنی دعا میں کتنا وقت درود کے لیے خاص کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا ایک چوتھائی صحیح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اگر اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھاہے! میں نے عرض کیا: نصف وقت مقرر کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھا ہے! میں نے عرض کیا: دو تہائی وقت مقرر کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے ہی بہتر ہے۔میں نے عرض کیا: میں اپنی ساری دعا کا وقت درود کے لیے وقف کرتاہوں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کے لیے کافی ہوگا، اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔
علماء فرماتے ہیں کہ دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے میں دو حکمتیں ہیں:
1۔ درود شریف خود ایک دعا ہے، اور یہ دعا ایسی ہے جس کی قبولیت میں ذردہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے ؛ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اس کی خبر دی ہے، اور ہمیں بھی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ درود شریف ایسی دعا ہے جس کی قبولیت میں ذرہ برابر شک نہیں ہے، اب جب بندہ اپنی حاجت مانگتاہے تو اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ درود شریف پڑھ کر اپنی حاجت کی دعا مانگے، یا دعا کے فوراً بعد درود شریف پڑھے، اس سے زیادہ امید ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائیں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ ایک دعا قبول فرمائیں اور اس کے ساتھ متصل مانگی جانے والی دعا کو رد کردیں۔
2۔ امتی جب درود شریف پڑھے گا تو وہ درود آپ ﷺ تک لازمی پہنچایا جائے گا، جیساکہ صحیح احادیث میں موجود ہے، اور آپ ﷺ ہر امتی کے درود اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔ زندگی میں آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کو ہدیہ دیتا یا آپ پر کسی کا معمولی احسان بھی ہوتا آپ ﷺ اسے ضرور بدلہ دیتے تھے، اور اس کے احسان سے بڑھ کر آپ ﷺ نے ہمیشہ بدلہ دیا ہے، اب جب ہم درود شریف پڑھیں گے اور آپ ﷺ تک ہماری یہ دعائیں پہنچیں گی تو آپﷺ امتی کے درود کے جواب میں ضرور اس کا بدلہ دیں گے، اور وہ بدلہ امتی کے لیے دعا کی صورت میں ہوگا، یوں امتی کی دعا شرف قبولیت پالے گی۔ (ان شاء اللہ)
لہٰذا دعا میں درود شریف پڑھنا دعا کے آداب میں سے ہے، اور ہماری سعادت ہے کہ ہم دعا میں درود شریف پڑھیں۔ اگر دعاکے شروع اور آخر دونوں میں پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، ورنہ دعا میں کسی بھی موقع پر (اول، آخر یا درمیان میں) جہاں بھی درود شریف پڑھ لیا گیا مذکورہ فضیلت پر عمل ہوجائے گا، لیکن یہ ضروری نہیں ہے، اس لیے اگر کسی نے دعا میں درود شریف نہ پڑھا تو گناہ گار نہیں ہوگا بشرطیکہ استخفافاً (اسے ہلکا اور معمولی سمجھتے ہوئے) ترک نہ کرے، اور جو دعا درود شریف کے بغیر مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کرنے پر قادر ہیں، لیکن محب صادق اور ایک امتی ہونے کی حیثیت سے دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں عموماً مشہور ہے کہ دعا کے اول و آخر میں درود شریف پڑھنا ضروری ہے، اور اس کا مطلب یہ لیا جاتاہے کہ دعا کے بالکل آغاز اور بالکل اختتام پر درود شریف پڑھا جائے، اس کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ علماء کرام نے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دعا کا یہ ادب ضرور بتایاہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دعا ہی درود شریف سے شروع کی جائے، بلکہ دعا کا مسنون طریقہ جو کئی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود منقول ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوب حمد وثنا کی جائے، اس کے بعد آپ ﷺ پر درود شریف بھیجا جائے، پھر آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر درود بھیج کر اپنی حاجت مانگی جائے، پھر دعا کے اختتام میں درود شریف اور پھر آخر میں حمد وثنا پر دعا ختم کی جائے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے، اس کے مطابق دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف بھی ہے، لیکن سب سے پہلے اور سب سے آخر میں حمد وثنا باری تعالیٰ ہے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص دعا شروع ہی درود شریف سے کرے اور ختم بھی درود شریف پر ہی کرے تو یہ بھی جائز ہے، اگر حضور ﷺ کی محبت میں ایسا کرے گا تو یہ خلافِ ادب بھی نہیں کہلائے گا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف کے کوئی بھی ثابت شدہ کلمات پڑھ لیے جائیں(خواہ وہ مختصر ہوں) اس سے درود شریف کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201798
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن