بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیک گراؤنڈ میوزک پر مشتمل حمد ونعت سننے کا حکم


سوال

آج کل نعت یا نظم و حمد کے  ساتھ اللہ کے نام کا ذکر بطور بیک گراؤنڈ میوزک کیا جاتا ہے،  اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے موسیقی  ایک ایسے فن کو کہتے ہے جس کے ذریعے گانے میں سُر نکالنے کے احوال،  اور سُروں کی موزونیت کے احوال، اور آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے کے احوال، اور راگ کے احوال سے بحث کی جاتی ہے، مذکورہ تعریف کی رُو سے موسیقی (میوزک) کا اطلاق صرف آلاتِ موسیقی پر نہیں ہوتا بلکہ آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے(یعنی منہ سے موسیقی جیسے آوازیں نکالنے) کو بھی موسیقی کہاجاتا ہے، اور موسیقی کا سننا ازروئے شرع حرام ہے، مختلف احادیث میں موسیقی سننے پر سخت وعیدیں آئی ہے۔

جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

 "حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔"

(مشکوٰۃ  المصابیح، باب البیان والشعر، رقم الحدیث:4810، ج:3، ص:1355، ط:المکتب الاسلامی)

اسی طرح حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا :اے نافع کیا تم کچھ  سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا،نبی کریم ﷺ نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا۔

(مشکوٰۃ  المصابیح، باب البیان والشعر، رقم الحدیث:4811، ج:3، ص:1355، ط:المکتب الاسلامی)

بصورتِ مسئولہ موسیقی کا اطلاق چوں کہ ایسے آوازوں پر بھی ہوتا ہے جو  منہ سے ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے کے بعد نکالی جاتی ہے، لہذا ایسے حمد  ونعت کا سننا جسکےپسے پشت ایسی اوازیں سنائی دیں(یعنی بیک گراؤنڈ نشید) جو آلات موسیقی سے نکلنے کے مانند ہو، از روئے شرع حرام ہے، نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ نشید اگر کسی انسان یا جان دار کی تصویر کے ساتھ ہو تو نشید کے  سننے کے ساتھ ساتھ تصویر وغیرہ دیکھنے کا گناہ بھی ہوگا اور یہ ایک جائز کام ناجائز طریقے سے کرنے کے مترادف ہے، کیوں کہ وڈیو پروگرام دیکھنا خواہ کسی بھی سلسلے میں ہو فی نفسہ اس کا دیکھنا حرام ہے۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"وَأَمَّا عِلْمُ الْمُوسِيقَى: فَهُوَ عِلْمٌ رِيَاضِيٌّ يُعْرَفُ مِنْهُ أَحْوَال النَّغَمِ وَالإِْيقَاعَاتِ، وَكَيْفِيَّةُ تَأْلِيفِ اللُّحُونِ، وَإِيجَادِ الآْلاَت".

(المادة:علم، ج:30، ص:293، ط:اميرحمزه كتب خانه)

حدیث شریف میں ہے:

"أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عِيسَى الْمَدِينِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ بِكُمْ إِذَا فَسَقَ فِتْيَانُكُمْ، وَطَغَى نِسَاؤُكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَأَشَدُّ مِنْهُ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا لَمْ تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَأَشَدُّ مِنْهُ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفًا، وَالْمَعْرُوفَ مُنْكَرًا؟"»

(الزهد والرقائق لابن المبارك، باب فضل ذكر الله عز وجل، ج:1، ص:484، ط:دارالكتب العلمية) 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "«وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه )

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144212200649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں