بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حج تمتع اور حج بدل کرنے کا طریقہ


سوال

حج تمتع اور حج بدل کرنے کا طریقہ بتا دیں!

 

جواب

۱)"تمتع"  کے لغوی معنیٰ ہیں ’’کچھ وقت تک فائدہ اٹھانا‘‘ ۔ حج تمتع یہ ہے کہ آدمی ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج  ساتھ ساتھ کرے، لیکن اس طرح کہ دونوں کے احرام الگ الگ باندھے، اپنے وطن سے صرف عمرے کا احرام باندھ کر جائے اور عمرہ کر لینے کے بعد احرام کھول کر ان ساری چیزوں سے فائدہ اٹھائے جو احرام کی حالت میں ممنوع ہو گئی تھیں، پھر حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے، اس حج  میں چوں کہ  عمرہ اور  حج کی درمیانی مدت میں احرام کھول کر حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا کچھ وقت مل جاتا ہے (بر خلاف حجِ قران کے  کہ اس میں حج اور عمرہ کے درمیان احرام کھولنے کی سہولت حاصل نہیں ہوتی ) ؛ اس لیے اس حج کو "حجِ تمتع" کہتے ہیں۔

حج تمتع کرنے  کا اجمالی طریقہ یہ ہے کہ حج تمتع کرنے والامیقات یا اس سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کرحج کے مہینوں میں عمرہ کرے گا، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد  حلق یا قصر کروانے کے بعد  حلال ہو جائے گا،پھر آٹھ ذی الحجہ کو حرم میں حج کا احرام   باندھے گا اور دس ذی الحجہ کو رمی، قربانی اور حلق یا قصر کرواکر حلال ہو جائے گا، دس سے بارہ ذی الحجہ کے درمیان ایک مرتبہ طواف زیارت اور تین دن (یعنی دس،  گیارہ اور  بارہ  ذی الحج) کی رمی کرنے سے حج تمتع مکمل ہوجائے گا، مکہ مکرمہ سے  واپسی کے وقت طوافِ وداع کرنا ہوگا۔

حج تمتع کرنے کا تفصیلی طریقہ یہ ہے کہ  میقات یا اس سے پہلے  عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے مہینوں (یعنی شوال، ذیقعدہ اور ذی الحج کا پہلا عشرہ) میں عمرہ کیا جائے، عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ آکر طواف کرے، یعنی بیت اللہ کے سات چکر لگائے، ہر چکر حجر اسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے، ہر چکر کے شروع میں حجر اسود کا استلام کرے اور ساتویں چکر سے فارغ ہو کر آٹھویں مرتبہ   حجر اسود کا استلام کرے ( استلام کا مطلب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور اگر براہِ راست بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھوں کے ذریعہ سے حجر اسود کو چھو کر اپنے ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو یا حالتِ احرام میں حجر اسود پر لگی خوشبو لگنے کا اندیشہ ہو تو دور سے حجر اسود کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کر کے پھر ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے)، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے، لہٰذا اگر مکروہ وقت نہ ہو تو اسی وقت پڑھے، ورنہ مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد پڑھے، یہ دو رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے مقامِ ابراہیم کو سامنے لے کر پڑھے، (اگر مقامِ ابراہیم کے قریب رش زیادہ ہو تو مسجدِ حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلے) پھر زم زم پی کر سعی کے لیے جائے اور جانے سے پہلے حجر اسود کا نویں مرتبہ استلام کرے، سعی صفا سے شروع کرے مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر، اسی طرح سات چکر لگائے، اس کے بعد مسجدِ حرام میں آکر دو رکعت پڑھے،(یہ دو رکعت ادا کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، اگر یہ دو رکعت ادا نہیں کیں تو بھی عمرہ مکمل ہوگیا، ان کے چھوڑنے پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا، نہ ہی کراہت لازم آئے گی) اس کے بعد حلق کروائے، یہ عمرہ ہوا، اب احرام کھول دے اور  اپنے کپڑوں میں رہے، کیوں کہ احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں، اس کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کرے یا کسی اور جگہ جانا چاہے تو جائے مگر اپنے وطن نہ جائے، مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے بڑی عبادت طواف ہے، اس لیے جتنا وقت فرض، واجب اور سنت ادا کرنے کے بعد بچے وہ طواف میں لگانے کی کوشش کرے اور حرم پاک میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے ، اگر اس دوران مزید عمرے کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

پھر جب حج کا وقت ( یعنی آٹھ ذی الحجہ) آجائے تو غسل کر کے حج کا احرام باندھ لے اور طواف کر کے سعی کرلے (یہ سعی مقدم ہوگی،  یعنی اگر ابھی سعی کرلی تو پھر طواف زیارت کے بعد سعی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر ابھی سعی نہیں کی تو پھر طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنی پڑے گی)، اس کے بعد منیٰ چلا جائے، آٹھ ذی الحجہ کی ظہر سے لے کر نو ذی الحجہ کے سورج نکلنے تک منیٰ میں رہے، نو ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات روانہ ہوجائے، اگر مکتب والے اس سے پہلے لے جائیں تو پہلے چلا جائے کوئی حرج نہیں،زوال سے پہلے  عرفات پہنچ جائے، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جب ظہر کا وقت داخل ہوجائے تو ظہر پڑھ لے، اگر مسجد نمرہ کے امام کے پیچھے پڑھے تو ظہر اور عصر اکھٹی پڑھے، پہلے ظہر پھر عصر، اگر اپنے خیمہ میں پڑھنی ہو تو اذان دے کر اقامت کے ساتھ صرف ظہر پڑھے، پھر وقوف کرے، اس میں دعائیں پڑھے، کلمہ طیبہ، شہادت، تمجید استغفار، درود شریف وغیرہ جس قدر ہو سکے پڑھے، کھڑا ہوکر پڑھتا رہے، کھڑے کھڑے تھک جائے تو بیٹھ کر پڑھے، عصر کا وقت آئے تو اذان و اقامت کے ساتھ عصر پڑھے، پھر غروب تک اسی طرح دعا اور ذکر میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، غروب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو جائے، مغرب کی نماز عرفات میں نہ پڑھے، بلکہ  مزدلفہ میں جاکر ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی فرض نماز اکھٹے عشاء کے وقت میں پڑھے، پھر اس کے بعد پہلے مغرب کی سنت پھر عشاء کی سنت اور وتر وغیرہ پڑھے، پھر نیند کا تقاضا ہو تو سو جائے اور اگر جاگنا چاہے تو ذکر ، تسبیح، درود ، استغفار اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہے، تہجد پڑھے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے، اس دوران تقریباً ستر کنکریاں بھی جمع کرلے، فجر کی نماز اول وقت یعنی اندھیرے میں پڑھے، پھر کھڑے ہوکر وقوف کرے اور کچھ دیر دعا کرے، پھر اس کے بعد منیٰ آجائے، منیٰ میں اس دن (یعنی دس ذی الحجہ کو) صرف جمرہ عقبہ یعنی سب سے آخر والے (بڑے) شیطان کو سات کنکریاں مارے، اس کے بعد منیٰ ہی میں یا حدودِ حرم کے اندر کہیں بھی قربانی کرے، پھر سر منڈائے (سر منڈانے کے بعد احرام کی ساری پابندیاں ختم ہوجائیں گی سوائے بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کے، بیوی طوافِ زیارت کے بعد حلال ہوگی)، اب احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر مکہ مکرمہ آجائے اور طوافِ زیارت کرے، یہ طواف فرض ہے، اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد نفلی طواف کے بعد سعی نہ کی ہو تو اب طوافِ زیارت کے بعد سعی بھی کرے، پھر اس کے بعد منٰی واپس آجائے، رات کو منٰی میں رہے، صبح ( یعنی گیارہ ذی الحجہ کی صبح) اٹھ کر زوال کے بعد ترتیب سے سب سے پہلے، پہلے والے شیطان کو الگ الگ سات کنکریاں مار کر ایک طرف ہو کر دعا کرے، پھر دوسرے شیطان کو اسی طرح سات کنکریاں مار کر کچھ دور ہو کر دعا کرے، پھر تیسرے شیطان کو سات کنکریاں مار کر دعا کیے بغیر واپس آجائے، یہ رات بھی منٰی میں گزارے، صبح ( یعنی بارہ ذی الحجہ کی صبح)  کو پھر زوال کے بعد اسی طرح تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں مارے، اب اگر بارہ ذی الحجہ کو ہی مکہ مکرمہ واپس جانا چاہے تو جا سکتا ہے اور اگر تیرہ ذی الحجہ کی صبح صادق تک منٰی میں رکے گا تو تیرہ ذی الحجہ کی رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) بھی کرنی پڑے گی، دس سے بارہ ذی الحجہ کے اندر اندر طوافِ زیارت ضرور کرے، ورنہ  بارہ کے بعد طوافِ زیارت کرنے کی صورت میں تاخیر کی وجہ سے ایک دم لازم ہو جائے گا، بہرحال یہ تمام افعال کرنے سے حج مکمل ہوگیا ہے، مکہ مکرمہ سے وطن واپس آتے وقت طوافِ وداع کر کے آئے، یہ طواف واجب ہے۔

نوٹ:

  • تمتع کے لیے آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والا ہونا شرط ہے، مکہ مکرمہ میں رہنے والے اور میقات کے اندر رہنے والے کے لیے تمتع کرنا جائز نہیں ہے۔
  • حج تمتع کرنے والا ایک عمرہ کرنے کے بعد  حج کے احرام سے پہلے مزید عمرے بھی کرسکتا ہے۔
  • دسویں ذی الحجہ کو منٰی میں قربانی کرنا حجِ قران اور حجِ تمتع کرنے والے پر واجب ہے، (یہ قربانی عام واجب قربانی سے الگ مستقل قربانی ہے جو حجِ قران اور حجِ تمتع میں بطورِ شکر واجب ہوتی ہے) جب کہ حج افراد کرنے والے پر واجب نہیں، مستحب ہے۔
  • حج تمتع کرنے والے پر طوافِ قدوم نہیں ہے، حج تمتع کرنے والا عمرہ کے طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل اور ساتوں چکروں میں اضطباع کرے گا، البتہ عورتوں کے لیے رمل اور اضطباع کا حکم بالکل نہیں ہے، اس لیے عورتیں طواف میں رمل اور اضطباع بالکل نہ کریں۔

۲)جس شخص پر استطاعت کی وجہ سے حج فرض ہوگیا اور اس نے حج کا زمانہ پایا مگر کسی وجہ سے حج نہ کر سکا، پھر کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رہی مثلاً ایسا بیمار ہوگیا جس سے شفا کی امید نہیں یا نابینا ہوگیا یا اپاہج ہو گیا یا فالج ہوگیا یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہوگیا کہ خود سفر کرنے پر قدرت نہیں رہی، تو اس آدمی کے لیے اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروانا یا اپنے مرنے کے بعد اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل  کروانے کی وصیت کرنا فرض ہے، وصیت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حج بدل کرادیا جائے‘‘۔

حج بدل کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

  • میت یا جس زندہ معذور آدمی کی طرف سے حجِ بدل  کیا جارہا ہے اس کے وطن سے کرانا چاہیے؛ کیوں کہ میت یا زندہ معذور آدمی اگر خود حج کرتے تو اپنے وطن سے کرتے، البتہ اگر وصیت یا فرضیت کے بغیر کوئی شخص اپنے عزیز کی طرف سے حج بدل کرتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب کا نفل حج ہے، وہ ہر جگہ سے ہو سکتا ہے۔
  • احرام کے وقت حج کی نیت میت یا جس زندہ معذور آدمی کی طرف سے  حج کر رہا ہے اس کی طرف سے کرنی چاہیے، یعنی احرام باندھتے وقت زبان سے یہ کہے کہ "میں فلاں شخص کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں" اور اگر نام بھول جائے تو یہ کہے کہ ’’جس شخص کی طرف سے مجھ کو حج کے لیے بھیجا گیا ہے میں اس کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں‘‘۔ اگر حج بدل کا احرام باندھتے وقت اس آدمی کی طرف سے حجِ بدل کرنے کی نیت نہیں کرے گا تو حجِ بدل ادا نہیں ہوگا اور ضمان لازم آئے گا؛ کیوں کہ اس نے حجِ بدل کے لیے پیسہ لینے کے باوجود حجِ بدل نہیں کیا۔
  • حجِ بدل کرنے والے کو حج افراد کرنا چاہیے، یعنی وطن سے جاتے ہوئے صرف حج کا احرام باندھنا چاہیے،اور دس ذی الحجہ تک اس احرام میں رہنا چاہیے، البتہ حجِ بدل کے لیے بھیجنے والے کی اجازت سے حجِ بدل میں حجِ تمتع اور حجِ قران کرنا بھی جائز ہے، لیکن حجِ تمتع یا قران کرنے کی صورت میں جو دمِ شکر (قربانی) لازم ہوتی ہے اگر بھیجنے والا اپنی خوشی سے اس قربانی کی قیمت ادا کردے تو بہتر، ورنہ اپنے پاس سے قربانی کرنی ہوگی، موجودہ زمانہ میں عرف کے اعتبار سے حج کے لیے بھیجنے والے کی طرف سے تمتع، قران اور قربانی کی اجازت ثابت ہے؛ اس لیے واضح طور پر اجازت لینا ضروری نہیں، تاہم صراحۃً اجازت لے لینا زیادہ بہتر ہے، حجِ بدل کرانے والے کو چاہیے کہ حجِ بدل کرنے والے کو ہر قسم کا اختیار دے دے، تاکہ حساب، خرچ، تمتع، قران، قربانی یا کوئی حادثہ، بیماری یا عذر وغیرہ کے سلسلہ میں مزید اجازت کی ضرورت پیش نہ آئے، عام اجازت اس طرح دے کہ ’’ میری طرف سے جس طرح چاہو حج کر لینا ‘‘۔
  • حجِ بدل کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ  حجِ بدل جس کی طرف سے کیا جارہا ہے سارا خرچہ  یا خرچہ کا اکثر حصہ اسی کے مال میں سے ادا کیا جائے۔
  • حجِ بدل کرانے والا حجِ بدل کرنے والے کو جانے سے آنے تک تمام خرچہ دے،  بلکہ واپسی تک اس کے گھر والوں کا خرچہ جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے ان کا خرچہ بھی دینا چاہیے، لیکن حجِ بدل کرنے والے کو جو خرچہ دیا جائے اس میں اس پر انتہائی ایمان داری، دیانت داری اور  احتیاط لازم ہے، ورنہ حق العباد کا مؤاخذہ ہوگا، سفر کے بعد جو رقم بچے وہ واپس کردے اور بہتر یہ ہے کہ بھیجنے والا پہلے ہی کہہ دے کہ اگر خرچ میں کوئی بد عنوانی اتفاقاً ہوجائے تو وہ میری طرف سے معاف ہے۔
  • حجِ بدل کرنے کے لیے باشعور عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ بچے اور پاگل حجِ بدل نہیں کرسکتے اور حجِ بدل کرنے والا دین دار اور قابلِ اعتماد ہونا چاہیے اور حجِ بدل کے مسائل سے واقف ہونا چاہیے، بلکہ عالم ہو تو زیادہ بہتر ہے اور پہلے سے حج کیا ہوا ہونا چاہیے خواہ غریب ہو یا امیر، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
  • اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ حجِ بدل اجرت کے بدلہ نہ کروایا جائے۔
  • حجِ بدل کرنے والا آمر ( جس کے حکم سے حج کر رہا ہے ) کے حکم کی مخالفت نہ کرے، اور دی گئی ہدایات کے مطابق حج کرے۔
  • حجِ بدل کرنے والا صرف ایک حج کا احرام باندھے، ایک دفعہ میں متعدد آدمیوں کی طرف سے متعدد حج کا احرام نہ باندھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 535):

"باب التمتع (هو) لغةً من المتاع والمتعة، وشرعاً: (أن يفعل العمرة أو أكثر أشواطها في أشهر الحج)، فلو طاف الأقل في رمضان مثلاً ثم طاف الباقي في شوال، ثم حج من عامه كان متمتعاً، فتح، قال المصنف: فلتغير النسخ إلى هذا التعريف (ويطوف ويسعى) كما مر (ويحلق أو يقصر) إن شاء (ويقطع التلبية في أول طوافه) للعمرة وأقام بمكة حلالاً (ثم يحرم للحج) في سفر واحد حقيقةً أو حكماً بأن يلم بأهله إلماماً غير صحيح (يوم التروية، وقبله أفضل، ويحج كالمفرد) لكنه يرمل في طواف الزيارة ويسعى بعده إن لم يكن قدمهما بعد الإحرام (وذبح) كالقارن (ولم تنب الأضحية عنه، فإن عجز) عن دم (صار كالقران، وجاز صوم الثلاثة بعد إحرامها) أي العمرة، لكن في أشهر الحج (لا قبله) أي الإحرام (وتأخيره أفضل) رجاء وجود الهدي كما مر (وإن أراد المتمتع السوق) للهدي (وهو أفضل) أحرم ثم (ساق هديه) معه (وهو أولى من قوده إلا إذا كانت لاتنساق) فيقودها (وقلد بدنته وهو أولى من التجليل، وكره الإشعار، وهو شق سنامها من الأيسر) أو الأيمن؛ لأن كل أحد لا يحسنه، فأما من أحسنه بأن قطع الجلد فقط فلا بأس به، (واعتمر، ولا يتحلل منها) حتى ينحر، (ثم أحرم للحج كما مر) فيمن لم يسق (وحلق يوم النحر و) إذا حلق (حل من إحراميه) على الظاهر (والمكي ومن في حكمه يفرد فقط) ولو قرن أو تمتع جاز وأساء، وعليه دم جبر.

 [باب التمتع]

 ذكره عقب القران؛ لاقترانهما في معنى الانتفاع بالنسكين، وقدم القران لمزيد فضله، نهر (قوله: من المتاع) أي مشتق منه؛ لأن التمتع مصدر مزيد والمجرد أصل المزيد ط. وفي الزيلعي: التمتع من المتاع أو المتعة، وهو الانتفاع أو النفع، قال الشاعر:

وقفت على قبر غريب بقفرة ... متاع قليل من غريب مفارق

جعل الأنس بالقبر متاعاً. اهـ. (قوله: وشرعاً أن يفعل العمرة) أي طوافها؛ لأن السعي ليس ركناً فيها على الصحيح كالحج، وقوله الآتي: ثم يحرم بالحج بالنصب عطفاً على يفعل، فهو من تتمة التعريف، وأشار إلى أنه لا يشترط كون إحرام العمرة في أشهر الحج ولا كون التمتع في عام الإحرام بالعمرة، بل الشرط عام فعلها، حتى لو أحرم بعمرة في رمضان وأقام على إحرامه إلى شوال من العام القابل، ثم حج من عامه ذلك كان متمتعاً، كما في الفتح. [تنبيه]

ذكر في اللباب أن شرائط التمتع أحد عشر: الأول: أن يطوف للعمرة كله أو أكثره في أشهر الحج.

الثاني: أن يقدم إحرام العمرة على الحج.

الثالث: أن يطوف للعمرة كله أو أكثر قبل إحرام الحج.

الرابع: عدم إفساد العمرة.

الخامس: عدم إفساد الحج.

السادس: عدم الإلمام إلماماً صحيحاً كما يأتي.

السابع: أن يكون طواف العمرة كله أو أكثره والحج في سفر واحد، فلو رجع إلى أهله قبل إتمام الطواف ثم عاد وحج، فإن كان أكثر الطواف في السفر الأول لم يكن متمتعاً، وإن كان أكثره في الثاني كان متمتعاً، وهذا الشرط على قول محمد خاصة على ما في المشاهير.

الثامن: أداؤهما في سنة واحدة، فلو طاف للعمرة في أشهر الحج من هذه السنة وحج من سنة أخرى لم يكن متمتعاً وإن لم يلم بينهما أو بقي حراماً إلى الثانية.

التاسع: عدم التوطن بمكة فلو اعتمر ثم عزم على المقام بمكة أبداً لا يكون متمتعاً، وإن عزم شهرين أي مثلاً وحج كان متمتعاً.

العاشر: أن لا تدخل عليه أشهر الحج وهو حلال بمكة أو محرم ولكن قد طاف للعمرة أكثره قبلها إلا أن يعود إلى أهله فيحرم بعمرة.

الحادي عشر: أن يكون من أهل الآفاق والعبرة للتوطن، فلو استوطن المكي في المدينة مثلاً فهو آفاقي وبالعكس مكي، ومن كان له أهل بهما واستوت إقامته فيهما فليس بمتمتع وإن كانت إقامته في إحداها أكثر لم يصرحوا به. قال صاحب البحر: وينبغي أن يكون الحكم للكثير، وأطلق المنع في خزانة الأكمل. اهـ .... (قوله: وأقام بمكة حلالاً) هذا ليس بلازم في التمتع، بل إن أقام بها حج كأهلها فميقاته الحرم، وإن أقام بالمواقيت أو داخلها حج كأهلها فميقاته الحل، وإن أقام خارج المواقيت أحرم فيها، كذا في القهستاني، فقوله: ثم يحرم بالحج يجري على هذا التفصيل ط. [تنبيه] أفاد أنه يفعل ما يفعله الحلال، فيطوف بالبيت ما بدا له ويعتمر قبل الحج ... (قوله: يوم التروية)؛ لأنه يوم إحرام أهل مكة، وإلا فلو أحرم يوم عرفة جاز، معراج. قال في اللباب: والأفضل أن يحرم من المسجد، ويجوز من جميع الحرم ومن مكة أفضل من خارجها، ويصح ولوخارج الحرم ولكن يجب كونه فيه إلا إذا خرج إلى الحل لحاجة فأحرم منه لا شيء عليه، بخلاف ما لو خرج لقصد الإحرام اهـ (قوله: لكنه يرمل في طواف الزيارة) أي لأنه أول طواف يفعله في حجه: أي بخلاف المفرد فإنه يرمل في طواف القدوم كالقارن، كما مر. قال في البحر: وليس على المتمتع طواف قدوم كما في المبتغى: أي لا يكون مسنوناً في حقه، بخلاف القارن؛ لأن المتمتع حين قدومه محرماً بالعمرة فقط، وليس لها طواف قدومه ولا صدر اهـ فالاستدراك في محله، فافهم (قوله: إن لم يكن قدمهما) أي عقب طواف تطوع بعد الإحرام بالحج، فلا دلالة في هذا على مشروعية طواف القدوم للمتمتع، خلافاً لما فهمه في النهاية والعناية كما بسطه في الفتح".

الفتاوى الهندية (1/ 238):

"والمتمتع من يأتي بأعمال العمرة في أشهر الحج أو يطوف أكثر طوافها في أشهر الحج ثم يحرم بالحج ويحج من عامه ذلك قبل أن يلم بأهله بينهما إلماماً صحيحاً، هكذا في فتاوى قاضي خان. سواء حل من إحرامه الأول أو لا، كذا في محيط السرخسي. وليس من شرط التمتع وجود الإحرام بالعمرة في أشهر الحج بل أداؤها فيها أو أداء أكثر طوافها، فلو طاف ثلاثة أشواط في رمضان ثم دخل شوال فطاف الأربعة الباقية ثم حج في عامه كان متمتعاً، هكذا في فتح القدير. فلو طاف المتمتع أكثر طواف عمرته قبل أشهر الحج وحج من عامه ذلك لا يكون متمتعاً ويكون مفرداً بعمرة ومفرداً بحجة ولا يجب عليه الهدي، كذا في الظهيرية. ولا يشترط أن يكون من عام الإحرام بالعمرة بل من عام فعلها حتى لو أحرم في رمضان وأقام على إحرامه إلى شوال من العام القابل، ثم طاف لعمرته من القابل، ثم حج من عامه ذلك كان متمتعاً، كذا في البحر الرائق ... والمتمتع على وجهين: متمتع يسوق الهدي، ومتمتع لا يسوق الهدي، وصفة المتمتع الذي لا يسوق الهدي: أن يبتدئ من الميقات فيحرم بعمرة ويدخل مكة ويطوف لها ويسعى ويحلق أو يقصر وقد حل من عمرته، كذا في السراج الوهاج. والإحرام من الميقات ليس بشرط للعمرة ولا للتمتع حتى لو أحرم بها من دويرة أهله أو غيرها جاز وصار متمتعاً، وكذا الحلق بعد الفراغ منها ليس بحتم، بل له الخيار إن شاء تحلل، وإن شاء بقي محرماً حتى يحرم بالحج، كذا في التبيين. ويقطع التلبية إذا ابتدأ الطواف، وذلك عند استلام الحجر، كذا في السراج الوهاج. ثم يقيم بمكة حلالاً، كذا في الهداية. وليست الإقامة بمكة شرطاً، بل معناه أنه إذا أراد أن يقيم للحج من عامه ذلك فليقم حلالاً إلى وقت إحرام الحج، ولو أقام بمكة حراماً جاز، كذا في السراج الوهاج.  فإذا كان يوم التروية أحرم بالحج من المسجد، والشرط أن يحرم من الحرم، أما المسجد فليس بلازم، كذا في الهداية. والمسجد أفضل، ومكة أفضل من غيرها من الحرم، هكذا في فتح القدير. وهذا الوقت ليس بلازم حتى لو أحرم يوم عرفة جاز، كذا في الجوهرة النيرة. ولو أحرم قبل يوم التروية جاز وهو أفضل، كذا في التبيين. وكلما عجل فهو أفضل، كذا في الجوهرة النيرة. ويفعل ما يفعله الحاج المفرد غير أنه لا يطوف طواف التحية ويرمل في طواف الزيارة ويسعى بعده ولو كان هذا المتمتع بعد ما أحرم بالحج طاف طواف القدوم وسعى لم يرمل في طواف الزيارة سواء رمل في طواف القدوم أو لم يرمل ولا يسعى بعده، هكذا في النهاية وفتح القدير. ويجب الدم على المتمتع شكراً لما أنعم الله تعالى عليه بتيسير الجمع بين العبادتين، كذا في فتاوى قاضي خان. ولا يحلق رأسه حتى يذبح، وإن كان معسراً لا يجد ثمن الهدي فإنه يصوم ثلاثة أيام في الحج، وإنما يجوز له أن يصوم ثلاثة أيام بعد إحرام العمرة إلى يوم عرفة، ولا يجوز قبل ذلك ولا بعد يوم عرفة، والأفضل أن يصوم هذه الأيام الثلاثة يوم عرفة ويوم التروية ويوماً قبلها حتى يكون آخرها يوم عرفة، كذا في الظهيرية. ولا يجوز صومها إلا بنية من الليل كسائر الكفارات، وهو مخير في الصوم إن شاء تابعه، وإن شاء فرقه، كذا في الجوهرة النيرة. فإذا فعل ذلك ثم جاء يوم الحلق حلق أو قصر ثم يصوم سبعة أيام بعد ما مضت أيام التشريق عندنا، كذا في الظهيرية. وإن صامها بمكة بعد فراغه من الحج جاز عندنا، كذا في القدوري. قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: ومن لم يصم الثلاثة فليس عليه صوم السبعة، كذا في محيط السرخسي ... وليس لأهل مكة تمتع ولا قران، وإنما لهم الإفراد خاصة، كذا في الهداية. وكذلك أهل المواقيت ومن دونها إلى مكة في حكم أهل مكة، كذا في السراج الوهاج".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 594):

"باب الحج عن الغير:  الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى : ﴿وأن ليس للإنسان إلا ما سعى﴾ [النجم: 39]- أي إلا إذا وهبه له كما حققه الكمال،  أو اللام بمعنى على كما في - {ولهم اللعنة} [غافر: 52]- ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق. (العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقا) عند القدرة والعجز ولو النائب ذميا، لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقا، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط) لكن (بشرط دوام العجز إلى الموت) لأنه فرض العمر حتى تلزم الإعادة بزوال العذر (و) بشرط (نية الحج عنه) أي عن الآمر فيقول: أحرمت عن فلان ولبيت عن فلان، ولو نسي اسمه فنوى عن الآمر صح، وتكفي نية القلب (هذا) أي اشتراط دوام العجز إلى الموت (إذا كان) العجز كالحبس و (المرض يرجى زواله) أي يمكن (وإن لم يكن كذلك كالعمى والزمانة سقط الفرض) بحج الغير (عنه) فلا إعادة مطلقا سواء (استمر به ذلك العذر أم لا) ولو أحج عنه وهو صحيح ثم عجز واستمر لم يجزه لفقد شرطه (وبشرط الأمر به) أي بالحج عنه (فلا يجوز حج الغير بغير إذنه إلا إذا حج) أو أحج (الوارث عن مورثه) لوجود الأمر دلالة وبقي من الشرائط النفقة من مال الآمر كلها أو أكثرها وحج المأمور بنفسه وتعينه إن عينه، فلو قال: يحج عني فلان لا غيره لم يجز حج غيره، ولو لم يقل لا غيره جاز، وأوصلها في اللباب إلى عشرين شرطا منها عدم اشتراط الأجرة، فلو استأجر رجلا، بأن قال استأجرتك على أن تحج عني بكذا لم يجز حجه، وإنما يقول أمرتك أن تحج عني بلا ذكر إجارة. ولو أنفق من مال نفسه أو خلط النفقة بماله وحج وأنفق كله أو أكثره جاز وبرئ من الضمان (وشرط العجز) المذكور (للحج الفرض لا النفل) لاتساع بابه. (ويقع الحج) المفروض (عن الآمر على الظاهر) من المذهب، وقيل عن المأمور نفلا، وللآمر ثواب النفقة كالنفل (لكنه يشترط) لصحة النيابة (أهلية المأمور لصحة الأفعال) ثم فرع عليه بقوله (فجاز حج الصرورة) بمهملة: من لم يحج (والمرأة) ولو أمة (والعبد وغيره) كالمراهق وغيرهم أولى لعدم الخلاف (ولو أمر ذمياً) أو مجنوناً (لا) يصح ... (أوصى بحج فتطوع عنه رجل لم يجزه) وإن أمره الميت؛ لأنه لم يحصل مقصوده وهو ثواب الإنفاق، لكن لو حج عنه ابنه ليرجع في التركة جاز إن لم يقل من مالي، وكذا لو أحج لا ليرجع كالدين إذا قضاه من مال نفسه (ومن حج عن) كل من (آمريه وقع عنه وضمن مالهما) لأنه خالفهما (ولا يقدر على جعله عن أحدهما) لعدم الأولوية، وينبغي صحة التعيين لو أطلق الإحرام. ولو أبهمه، فإن عين أحدهما قبل الطواف والوقوف جاز، بخلاف ما لو أهل بحج عن أبويه أو غيرهما من الأجانب حال كونه (متبرعا فعين بعد ذلك جاز) لأنه متبرع بالثواب فله جعله لأحدهما أو لهما، وفي الحديث «من حج عن أبويه فقد قضى عنه حجته، وكان له فضل عشر حجج، وبعث من الأبرار» . (ودم الإحصار) لا غير (على الآمر في ماله ولو ميتا) قيل من الثلث، وقيل من الكل. ثم إن فاته لتقصير منه ضمن، وإن بآفة سماوية لا. (ودم القران) والتمتع (والجناية على الحاج) إن أذن له الآمر بالقران والتمتع وإلا فيصير مخالفا فيضمن (وضمن النفقة إن جامع قبل وقوفه) فيعيد بمال نفسه (وإن بعده فلا) لحصول المقصود.

 (قوله: وأوصلها في اللباب إلى عشرين شرطاً) تقدم منها ستة، وذكر الشارح السابع بعد ذلك. والثامن وجوب الحج، فلو أحج الفقير أو غيره ممن لم يجب عليه الحج عن الفرض لم يجز حج غيره عنه وإن وجب بعد ذلك. التاسع وجود العذر قبل الإحجاج، فلو أحج صحيح ثم عجز لا يجزيه. العاشر أن يحج راكباً، فلو حج ماشياً ولو بأمره ضمن النفقة، والمعتبر ركوب أكثر الطريق إلا إن ضاقت النفقة فحج ماشياً جاز. الحادي عشر: أن يحج عنه من وطنه إن اتسع الثلث وإلا فمن حيث يبلغ كما سيأتي بيانه. الثاني عشر: أن يحرم من الميقات، فلو اعتمر وقد أمره بالحج ثم حج من مكة لا يجوز ويضمن. وبحث فيه شارحه بما حاصله أنه غير ظاهر، ويتوقف على نقل صريح. قلت: قدمنا الكلام عليه مستوفى قبيل باب الإحرام فراجعه. الثالث عشر: أن لا يفسد حجه، فلو أفسده لم يقع عن الآمر وإن قضاه وسيأتي بيانه. الرابع عشر: عدم المخالفة، فلو أمره بالإفراد فقرن أو تمتع ولو للميت لم يقع عنه ويضمن النفقة كما سيأتي، ولو أمره بالعمرة فاعتمر ثم حج عن نفسه أو بالحج فحج ثم اعتمر عن نفسه جاز إلا أن نفقة إقامته للحج أو العمرة عن نفسه في ماله، وإذا فرغ عادت في مال الميت، وإن عكس لم يجز. الخامس عشر: أن يحرم بحجة واحدة، فلو أهل بحجة عن الآمر ثم بأخرى عن نفسه لم يجز إلا إن رفض الثانية. السادس عشر: أن يفرد الإهلال لواحد لو أمره رجلان بالحج، فلو أهل عنهما ضمن وسيأتي تمام الكلام عليه. السابع عشر والثامن عشر: إسلام الآمر والمأمور وعقلهما كما سيأتي، فلا يصح من المسلم للكافر ولا من المجنون لغيره ولا عكسه، لكن لو وجب الحج على المجنون قبل طرو جنونه صح الإحجاج عنه. التاسع عشر: تمييز المأمور، فلا يصح إحجاج صبي غير مميز ويصح إحجاج المراهق كما سيأتي. العشرون: عدم الفوات وسيأتي الكلام عليه. قال في اللباب: وهذه الشرائط كلها في الحج الفرض، وأما النفل فلا يشترط فيه شيء منها: إلا الإسلام والعقل والتمييز".

الفتاوى الهندية (1/ 257):

[الباب الرابع عشر في الحج عن الغير]

" الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. (العبادات ثلاثة أنواع): مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة تجري في النوع الأول في حالتي الاختيار والاضطرار، ولا تجري في النوع الثاني وتجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي. ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزاً عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادراً على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيراً صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه.

(ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت، هكذا في البدائع. حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه، وإن تعافى بطل وكذا لو أحج عن نفسه وهو محبوس، كذا في التبيين. فإن أحج الرجل الصحيح عن نفسه رجلاً ثم عجز لم تجزئه الحجة، كذا في السراج الوهاج. وإنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل، كذا في الكنز. ففي الحج النفل تجوز النيابة حالة القدرة؛ لأن باب النفل أوسع، كذا في السراج الوهاج. (ومنها) الأمر بالحج فلا يجوز حج الغير عنه بغير أمره إلا الوارث يحج عن مورثه بغير أمره فإنه يجزيه، (ومنها) نية المحجوج عنه عند الإحرام، والأفضل أن يقول بلسانه: لبيك عن فلان. (ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله، وكذا إذا أوصى أن يحج بماله ومات فتطوع عنه وارثه بمال نفسه، كذا في البدائع.

وإذا دفع إلى رجل مالاً للحج عن ميت فأنفق المأمور شيئاً من مال نفسه فإن كان في ماله وفاء بالنفقة؛ لا يصير مخالفاً ويرجع بما أنفق من مال الميت استحساناً ولا يرجع قياساً، وإن لم يكن في مال الميت وفاء بالنفقة فأنفق شيئاً من ماله؛ ينظر إن كان أكثر النفقة من مال الميت؛ جاز ووقع الحج عن الميت، وإلا فلا، وهذا استحسان، والقياس أن لا يجوز، هكذا في محيط السرخسي.

(ومنها) أن يحج راكباً حتى لو أمره بالحج فحج ماشياً يضمن النفقة ويحج عنه راكباً، كذا في البدائع. ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره أن أصل الحج يقع عن المحجوج عنه، ولهذا لا يسقط به الفرض عن المأمور وهو الحاج، كذا في التبيين. والأفضل للإنسان إذا أراد أن يحج رجلاً عن نفسه أن يحج رجلاً قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحج رجلاً لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر، كذا في المحيط. وفي الكرماني: الأفضل أن يكون عالماً بطريق الحج وأفعاله، ويكون حراً عاقلاً بالغاً، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. ولو أحج عنه امرأةً أو عبداً أو أمةً بإذن السيد جاز ويكره، هكذا في محيط السرخسي.

وإذا أمره رجلان كل واحد منهما أن يحج عنه حجة فأهل بحجة واحدة عنهما جميعاً فهذه الحجة عن نفسه ولا يقع لواحد منهما ويضمن النفقة ولا يمكنه بعد ذلك جعله عن أحدهما ... المأمور بالحج ينفق من مال الآمر ذاهبا وجائيا كذا في السراجية".

مناسک الملا علي القاری (ص: ۶۴۷ ) باب الحج عن الغیر:

"( و ینبغی للآمر ان یفوض الامر الی المأمور فیقول : حج عنی) أي بهذا ( کیف شئت مفرداً أو قارناً أو متمتعاً)".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں